کِسے گوارہ ہو؟

لگے ظلم کا سراغ ، کِسے گوارہ ہو؟
ملے کوئی فراغ، کِسے گوارہ ہو؟

جہاں روشنی ، چھین لی جاتی ہو
کوئی بنے چراغ، کِسے گوارہ ہو؟

جہاں پے کلیاں ، مسل دی جائیں
کوئی بنائے باغ ، کِسے گوارہ ہو؟

جھوٹ سے جہاں اُجلے ہوں دامن
کوئی لگائے داغ ، کِسے گوارہ ہو؟

سوچنے پے بھی پابندی ہو جہاں
سوچنے لگے دماغ، کِسے گوارہ ہو؟

جھوٹی خبروں کی اس دنیا میں
اظہر ہو ابلاغ ، کِسے گوارہ ہو؟

کوئی حُسین نہیں ہے

مسلم ہیں مگر رشتہ کوئی بھی بین نہیں ہے

لہو بہا کہ اک دوجے کا ذرا بھی چین نہیں ہے

ہے تو یہ بھی زمانے کے یزید بپا کی ہوئی کربلا

مگر افسوس کہ اس کربلا کا حُسین نہیں ہے

کربلا (سندھی سے ماخوذ)

ترجمہ : اظہر ہاشمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ڈرامہ میرے استاد اور مربی جناب عبدالحق قریشی نے سندھی میں لکھا تھا ، دو کرداروں پر مشتمل تھر کے قحط میں لکھا گیا یہ ڈرامہ ، دل کو چھو لیتا ہے ۔۔۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ حق صاحب سندھی کے مشہور رائیٹر ہیں اور بیشمار ڈرامے لکھ چکے ہیں ۔۔ اور سندھی ٹی وی کے جانے مانے مصنف ہیں ۔۔۔۔ مگر یہ ڈرامہ بنانے سے سب نے انکار کیا تھا ۔۔۔جیسے ہماری آج کی سندھ گورنمنٹ کر رہی ہے ، میں اس ڈرامے کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں ، شاید حق صاحب کی تحریر کاحق ادانہ کر سکوں۔ مگر شاید ان کی تحریر کا احساس ہم میں باقی رہے ۔۔۔۔اور ہم اپنے تھر کے عوام کو سمجھ سکیں ۔۔ میں اسکو اسی ڈرامہ اسٹائل میں پیش کر رہا ہوں جیسے یہ لکھا گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کردار
شاھن ، ایک ابنارمل بچہ ہے ، جسکی عمر اٹھارہ سال کے لگ بھگ ہے
میراں ، شاھن کی نانی ہے ، عمر پچاس کے لگ بھگ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا منظر
، تھر کا ایک گاؤں ، آسمان سے سورج آگ برسارہا ہے ، اور ریت ملی مٹی اْڑ رہی ہے ، ایک آواز آتی ہے
۔ یہ کہانی تھر کے ایک گاؤں کی ہے ، جہاں آسمان پر نہ تو بادل ہیں نہ ہی ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں ، آنکھیں بارشوں کا انتظار کرتے کرتے تھک گئیں تھیں ، پیٹ کی بھوک نے جب کھانے کو کچھ نہ پایا اور پانی کی خواہش میں ہونٹ سوکھنے لگے ۔۔ تو لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جانے لگے ۔۔۔ گاؤں ویران ہو گیا ، مگر دو افرادنے یہ گاؤں نہ چھوڑا ،اورقبریں تھیں ۔۔۔
یہ قبر شاھن کی ماں کی ہے ، شاھن جو پیدائشی طور پر ابنارمل بچہ تھا ، جوان ہونے کے باوجود وہ بچوں کے ساتھ کھیلتا تھا ، محدود سمجھ بوجھ ہونے کے باوجود وہ سمجھتا تھا کہ اسکا وجوداسکی ماں کی وجہ سے ہے ، شاید یہ وہ قدرتی امر ہے کہ انسان سب کچھ بھلا دیتا ہے مگر اپنی ماں کو کبھی نہیں بھولتا
یہ میراں ہے ، میراں شاھن کی نانی ہے ، خشک سالی اور پانی نہ ہونے کے باوجود اسنے شاھن سے اسکی ماں کی قبر نہ چھڑا سکی ، شاھن کا وجود ہی میراں کوزندہ رکھے ہوے تھا ، اسنے اپنے خشک آنکھوں سے سارے گوٹھ (گاؤں ) کو جاتے ہوئے دیکھا ، گوٹھ والوں نے اسے بہت سمجھایا پر وہ نہ مانی ، توگاؤں والوں نے انکے لیے کچھ آٹا اور پانی سے بھرے ہوئے مٹکے چھوڑ دیے ۔۔۔ تو ان دونوں کا وجود ہی اس گاؤں کو آباد رکھے ہوئے تھا ۔۔۔ اور زندگی کے ہونے کی علامت تھا

دوسرا منظر
میراں کے کچے گھر کا صحن ، جس میں میراں کھانا بنا رہی ہے ، مٹی کے چولہے پر ، شاھن چور قدموں سے آہستہ آہستہ آ کہ میراں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر بچوں کے انداز میں کہتا ہے
۔ نانی نانی ۔۔ نانی ۔۔ بتاؤ تو میں کون ہوں ؟
نانی نے اپنے چہرے سے اسکے ہاتھ ہٹاتے ہوئے آہ بھر کہ بولی
۔ اب اس گوٹھ میں تمہارے اور میرے سوا اور کون ہے
۔ نا نا ان ۔۔۔مجھے پہچانو ۔۔۔ میرا نام بتاؤ۔۔ نانی ، شاھن نے پھر ہاتھ میراں کی آنکھوں پر رکھ دیے
۔ تم ۔۔۔ تو۔۔۔ تو میرا شاھن ہے ۔۔۔ اب چھوڑو ، روٹی جل جائے گی
۔ ہا ہا ۔۔ ہاں ہاں۔۔۔ میں شاھن ہوں ۔۔ تم۔۔۔تم ۔۔ میراں ہو۔۔۔میری نانی ہو ۔۔ ہاں ہاں ۔۔ شاھن نے بچوں کے انداز میں تالی بجا کہ کہا
۔ ہو آئے ماں کی قبر سے ۔۔۔۔
۔ ہاں ہاں نانی ، ماں کو کھانا کھلا کہ ، پانی پلا کہ اور مٹی کی موٹی تہ لگاکہ آیا ہوں
۔ لو ، ادھر زندہ لوگوں کے کھانے پینے کو کچھ نہیں ، تم مرے ہوئے کو کھانے پلانے کی باتیں کر رہے ہو ، میراں نے منہ بناتے ہوئے کہا ، تو شاھن نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے منہ بنا لیا تو میراں نے پیار سے پوچھا
۔ اب کیا ہو گیا ہے تمہیں ۔۔۔ مگر شاھن نے کوئی جواب نہ دیا تو میراں نے آسمان کی طرف بے بسی سے دیکھتے ہوئے کہا
۔ اے بے پرواہ پروردگار ، بتا تو سہی ، سچ ۔۔۔ پاگلوں کو دوسرا کون دیکھے گا ۔۔۔
پھر میراں شاھن کی طرف مڑی اور بولی
۔ اب غصہ چھوڑو اور ۔۔۔ کھانا کھا لو ۔۔۔ شاباش ۔۔۔ اٹھو ۔۔
۔ ناں ۔۔ میں تم سے کْٹی ہوں ۔۔۔ تم نے مجھے جھوٹا سمجھا ہے ۔۔۔ پاگل کہا ہے ۔۔
۔ ارے ابا ۔۔۔ (سندھی میں مخاطب کرنے کا یہ بھی انداز ہے ) تم سے بات نہ کروں تو کس سے کروں ؟
۔ تم نے مجھ سے مذاق کیا ہے ۔۔ اور مجھے جھوٹا نہیں کہا کیا ، پاگل نہیں کہا ۔۔۔ کیا ۔۔ ہونہ
۔ ہاں ۔ ہاں ۔۔ تم سچے ہو باقی سب جھوٹے ہیں ۔۔ چلواب کھانا کھا لو ۔۔۔
میراں نے اسے پیار سے چمکارتے ہوئے کہا اور دونوں کھانا کھانے لگے

تیسرا منظر
شاھن مٹکوں کو الٹ الٹ کر پانی بہا رہا ہے ، میراں چیختی ہوئی آتی ہے ،
۔ نانی نانی ۔۔ دیکھو کتنا پانی ۔۔۔ نانی نانی ۔۔۔ دیکھو کتنا پانی
میراں سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ہے
یہ ۔۔۔۔ یہ کیا کیا تو نے ، سارا پانی بہا دیا ۔۔۔ اور اسپر خوش بھی ہو رہے ہو ۔۔۔ یہ کیا کیا شاھن
شاھن نے اسکی طرف دیکھا اور پھر کٹی کا نشان دکھا کر ماں کی قبر کے پاس جا کہ بیٹھ گیا اور قبر کی مٹی سے کھیلنے لگا
میراں نے اسے پیار سے پکارا
۔ شاھن۔۔۔ شاھن ۔۔ میرے بچے ۔۔۔میری بات سنو ۔۔۔۔ چلو چل کہ کھانا کھا لو ۔۔۔
۔ نہیں میں نہیں سنتا میں نہیں ۔۔۔ سنتا۔۔۔
۔ اچھا ٹھیک ہے نہ سنو ۔۔۔۔ میں بھی تیری ماں کی طرح مر جاؤں گی اگر روٹی نہ کھائی تو ۔۔
۔ شاھن ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور میراں سے لپٹ گیا ۔۔۔
۔ نا نا نا ۔۔۔ میں سنوں گا۔۔ میں تیری ہر بات مانوں گا ۔۔ تم ماں کی طرح نہیں مرنا ۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا ۔۔ اور میراں کی آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے

چوتھا منظر
شاھن جہاز بنا ادھر ادھر گھومتا پھر رہا ہے ، میراں اسے بیٹھنے کو کہ رہی ہے
۔ چل بیٹھ ادھر یہ زوں زوں بند کر
۔ نہیں نہیں۔۔۔۔ میں اڑ کہ اماں سے ملنے جاؤں گا ۔۔۔ زوں زوں ۔۔۔
۔ اچھا اکیلے ہی جاؤ گے ، مجھے نہیں لے کہ جاؤ گے ؟
۔ نہیں تمہیں بھی لے جاؤں گا ۔۔۔ نانی ۔۔۔ وہ اسکے پاس بیٹھ گیا ۔۔۔
۔ نانی ۔۔ یہ کربلا کیا ہے ؟
۔ کربلا ،۔۔۔۔ توں کیوں پوچھ رہا ہے
۔ بتاؤ نا نانی ۔۔۔ یہ کربلا کیا ہے
۔ چْپ کر کہ سو جاؤ ۔۔ میں نہیں بتاتی
۔ نہ بتاؤ ۔۔۔ مجھے پتا ہے۔ 247۔۔۔۔۔ کربلا ہمارے جیسا ایک گوٹھ ہے ۔۔۔
۔ نہ نہ بیٹا۔۔۔ کربلا بہت اچھی جگہ ہے ۔۔۔
۔ ناں ۔۔۔۔ میں خود چاچا وسایو سے سنا تھا وہ چاچی کو کہ رہا تھا ، یہ گوٹھ کربلا ہے ۔۔ اب یہاں سے چلے جانا چاہیے۔۔ نہ پانی ہے نہ کھانے کو کچھ ۔۔۔ یہ کربلا ہے
۔ دیکھو بیٹا یہ گوٹھ تو کربلا کی خاک کے برابر نہیں ہے ۔۔۔ یہاں قحط کی وجہ سے کھانا پانی نہیں ہے ۔۔۔ لوگ اسلیے یہاں سے گئے ہیں ۔۔ ورنہ کربلا میں پانی تھا ۔۔۔ وہ تو یزید نے اللہ کے پسندیدہ بندوں پر پانی بند کیا تھا ۔۔ اس نے پانی نہیں پینے دیا تھا
۔ آ ۔۔ نانی یزید بہت برا تھا ۔۔ میں اسے کٹی ہوں ۔۔۔ اس نے پانی نہیں پینے دیا میں کٹی ہوں ۔۔۔
۔ ہاں شاھن ۔۔۔ اس سے سب کْٹی ہیں ۔۔ وہ بہت برا تھا ۔۔
۔ نانی۔۔۔ اللہ سائیں پانی کیوں نہیں دیتا ۔۔۔
۔ ہاں ۔۔ اللہ سائیں ہمیں صبر کا میٹھا پانی پلا رہا ہے ۔۔۔ میراں نے آہ بھر کہ بولا
۔ ہاں میں بھی صبر کا پانی پیوں گا۔۔۔ شاھن نے آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔
میراں اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے سو گئی ۔۔۔

پانچواں منظر
شاھن ۔۔۔ میدان میں گھومتا پھر رہا ہے ، اللہ سائیں پانی دے ، اللہ سائیں پانی دے ۔۔۔ سو برس کی نانی دے ۔۔ اللہ سائیں پانی دے ۔۔
وہ آسمان کی طرف نظر اٹھا کہ دیکھتا ہے ۔۔ مگر کوئی بادل نہیں ہے ۔۔ اسنے آسمان کی طرف کٹی کا اشارہ کیا ۔۔۔اور میراں کے سامنے منہ بنا کہ بیٹھ گیا
۔ ارے بیٹا اب کس سے ناراض ہو گئے ہو ۔۔
۔ اللہ سائیں سے
۔ نہیں بیٹا۔۔۔ اللہ سائیں بہت اچھا ہیں۔۔۔
۔ نہیں۔۔۔ اچھا ۔۔ اچھا ہیتو ۔۔ پانی کیوں نہیں دیتا ۔۔۔
۔ اسکے گھر دیر ہے اندھیر نہیں
۔ سارا گوٹھ خالی ہو گیا ہے ، اب اور کتنی دیر ہے ؟
۔ ہاں اس دیر میں بھی کوئی خیر ہے ۔۔ بیٹا چل اٹھ گھر چلییں کھانا کھائیں
۔ نہیں میں نہیں آتا ۔۔۔ نہیں آتا
۔ نہیں آئے گا تو میں بھی مر جاؤں گی تمہاری ماں کی طرح۔۔۔ میراں نے ہمیشہ والا نسخہ استعمال کیا
۔ نہیں نہیں ۔۔ نانی تو نہیں مرے گی ۔۔ تو نہیں مرے گی ۔۔۔ میں مرجاؤں گا۔۔ میں مر جاؤں گا
۔ نہ بیٹا ایسا نہ کہ میرا دل پھٹ جائے گا ۔۔ میراں نے شاہو کو سینے سے لگا لیا اور دونوں گھر کی طرف چلنے لگے

چھٹا منظر
آسمان پر بادلوں کی ٹکڑیاں آتی جاتی رہیں اور پھر وہ ہی ۔۔۔ چلچلاتی دھوپ ۔۔ شاھن نے کھیلنا بند کر دیا اور آسمان کو ہی دیکھتا رہا ، میراں بھی آسمان دیکھ کر سر جھکا لیتی ہے ، دونوں کے چہروں پر دکھ کے آثار اب بہت واضح ہیں
رات کو شاھن کے سر میں درد تھا ۔۔۔
۔ نانی مجھے سر درد کی گولی لا دو
۔ کہاں سے لا دوں دوکان توگوٹھ کی کب کی بند ہے
۔ تو پھر ۔۔ تیل مل دو
۔ تیل بھی کب کا ختم ہے ۔۔ کیا کروں
۔ نانی مجھے بہت درد ہے
۔ اچھا چل میں تجھ دعا پڑھ کر دم کر دیتی ہوں ۔۔۔
شاھن سوچتے سوچتے سو گیا ۔۔۔ میراں کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے

ساتواں منظر
شاھن بستر سے اٹھ کر خوشی خوشی میراں کے پاس آیا اور بولا
۔ نانی نانی پتہ ہے رات خوام میں میرے یزید آیا تھا
۔ یزید ؟
۔ تو میں نے اس سے کہا میں کٹی ہوں تم سے ۔۔ مگر اسنے کہا کٹی نہیں ہو میں تمہیں پانی دوں گا
۔ وہ وہ ۔۔۔ یزید نہیں بیٹا شیطان ہے ۔۔۔ یزید شیطان ہے ۔۔۔ وہ تمہیں ورغلا رہا ہے
۔ نہیں تم جھوٹ کہتی ہو ۔۔۔ وہ یزید پانی دے گا وہ صحن میں گھومنے لگا
۔ یزید یزید پانی دے ۔۔ سو برس کی نانی دے ۔۔ یزید یزید پانی دے ۔۔۔
۔ مجھے نہیں چاہیے ایسا پانی۔۔۔ ایسا نہیں کہ۔۔ مجھے وہ زندگی نہیں چاہیے جو شیطان دے ۔۔۔ نہیں چاہیے
اتنے میں بادلوں کی ایک ٹولی سی آسمان پر بننے لگی ۔۔۔ جسے دیکھ کر شاھن اور خوش ہو گیا
۔ نانی دیکھو۔۔ نانی دیکھو ۔۔۔ یزید نے میرے لیے پانی بھیجا ہے ۔۔ بادلوں میں پانی ہے۔۔ دیکھو نانی یزید نے پانی بھیجا ہے
گھٹا اور گہری ہوتی جا رہی تھی ۔ میراں نے سر اٹھا کہ آسمان کو دیکھا اور بولی
۔ اے رب العالمین ۔۔۔ جب سارے گوٹھ نے دعائیں مانگیں ۔۔۔ تو نے بارش نہ دی ۔۔۔ ایک نہ سنی کسی کی
وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی
تجھے اپنے پیارے حبیب کا واسطہ۔ تجھے اہل بیت کا واسطہ ۔۔۔ آج پانی نہ برسانا ۔۔۔میرے معصوم شاھن کے دل میں یزید شیطان بس جائے گا
بس آج کے دن بارش نہ برسا ۔۔۔ آج یہ رحمت ہم پے نہ برسا ۔۔۔ یا رب میرے شاھن پر رحم کر ۔۔۔ رحم کر ۔۔۔ شاھن کے دل کو اس گناہ سے بچا لے
اے رب رحم کر ۔۔
میراں رو رو کر گڑگڑارہی تھی ، اور بار بار آسمان پر بے بسی سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ بادل آہستہ آہستہ چھٹنے لگے ۔۔۔ اور تھوڑی دیر میں آسمان صاف ہو گیا
میراں کے چہرے پر سکون کے تاثرات پھیل گئے ۔۔۔ اور وہ سجدے میں گرپڑی
شکر ہے میرے رب ۔۔۔ تو نے میرے شاھن کو گناہ گارہونے سے بچا لیا ہے
شاھن نے پھر یزید سے کٹی کر لی اور کمرے میں جا کہ بستر پر لیٹ گیا
میراں کے چہرے پر خوشی پھوٹ رہی تھی ۔۔۔ اللہ نے اسکی دعا سن لی تھی

آٹھواں منظر
شام کے وقت شاھن ناراض بیٹھا ہے۔ میرں نے پوچھا
۔ شاھن ۔۔ کیا سوچ رہے ہو ، مگر شاھن کوئی جواب نہیں دیتا
۔ ارے بہرہ ہو گیا ہے کیا ، سنتا کیوں نہیں
۔ ادھر ۔۔ ادھر ۔۔ ادھر۔۔۔ سب بہرے ہیں ۔۔۔ اللہ سائیں بہرہ ہے ۔۔ وہ وہ وہ ۔۔۔ یزید بھی جھوٹا ہے ۔۔۔سب جھوٹے ہیں ۔۔ میں سب سے کْٹی ہوں
۔ ارے چریو ۔۔۔ یزید تو ہے ہی جھوٹا ۔۔ مگر اللہ سائیں نہیں ہے ۔۔
۔ اللہ سائیں نہیں ہے تو آج بارش کر دے نا ۔۔ آج بارش نہ ہوئی تو میں سب سے کٹی ۔۔پکی کٹی
شاھن نے پھر گول گول گھومنا شروع کر دیا

اللہ سائیں پانی دے ، سو برس کی نانی دے ۔۔ اللہ سائیں پانی دے
آسمان بادلوں سے بھرنے لگا ۔۔۔ اور تیز ہوائیں چلنے لگیں
تھوڑی دیر میں ہی ۔۔۔ بوندیں پڑنے لگیں ۔۔ شاہو اور زور سے گھومنے لگا ۔۔۔
۔۔۔ اور پھر خوشی سے میراں کے پاس جا بیٹا ۔۔
نانی نای ۔۔۔ یہ دیکھو پانی۔۔ نانی نانی ۔۔ اللہ سائیں نے پانی بھیجا ہے ۔۔۔
میراں بھی خوشی سے نہال ہو گئی
دیکھ بیٹا میں نے تم سے کہا تھا نا کہ اللہ سائیں سنتا ہے اللہ جھوٹا نہیں ۔۔ اسکے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ۔۔۔
۔ ہاں میں اب اللہ سائیں سے کْٹی نہیں ہوں ۔۔۔ اب گوٹھ والے لوٹ آئیں گے ۔۔۔
شاھن نے بارش میں بھیگتے ہوئے گھومنے لگا ۔۔ اسکے چہرے پر بوندیں ٹپ ٹپ گر رہیں تھیں ۔۔ مٹی کی پیاس بجھنے لگی تھی ۔۔
میراں ۔۔۔ سجدے میں اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی ۔۔۔
شاھن ۔۔۔ کے چہرے سے مٹی اتر رہی تھی ۔۔۔ اور ایک نرم ملائم اور حسین و معصوم چہرہ ابھر آیا تھا۔۔۔۔ اسکی آنکھیں بند تھیں ۔۔۔
اور بارش برستی رہی ۔۔ اور شاھن نہاتا رہا بارش میں ۔۔۔۔ تھر میں جل تھل ہو گیا تھا ۔ ۔۔۔

۔ ختم شْد۔۔

کالی روشنی ۔ سائنس فکشن

کالی روشنی
ایک سائینس فکشن کہانی
۳۰۳۱، میں نے گولڈن پلیٹ پر کندہ نمبر دیکھتے ہوئے فلیٹ کا دروازہ کھولا، میرے ساتھ بلڈنگ کا چوکیدار بھی تھا، صاحب آپ کو کوئی بھی پریشانی ہو تو ادھر سے امارے کو بیل دیو۔۔۔ ام فوراً آ جائے گا۔۔ ٹھیک ہے، میں نے اس سے اپنا بیگ لیتے ہوئے کہا، تم جاؤ، اچھا صاب۔۔۔ وہ رکا تو میں سمجھ گیا وہ کیا چاہتا ہے۔۔۔جیب سے دس کا نوٹ دیا اور شکریہ کہ کر دروازہ بند کر دیا۔۔۔۔
مجھے میری کمپنی نے اس شہر میں تین مہینے کے لئیے بھیجا تھا، فلیٹ پہلے سے ہماری کمپنی کے استعمال میں تھا، ہماری کمپنی کے تقریباً سارے کے ساے منیجر اسے استعمال کر چکے تھے۔۔۔۔
یہ ایک لگثری فلیٹ تھا۔۔۔سو زندگی کی ہر سہولت مہیا تھی۔۔۔ اور باقاعدہ دیکھ بھال کی وجہ سے اچھا نظر آ رہا تھا۔۔۔
میں نے اپنے بیگ سے شلوار سوٹ نکالا اور ریفریش ہو نے کے بعد بیڈ روم میں آگیا۔۔۔ بیڈ کے سامنے والی کھڑکی کھولی تو سامنے ایک خوبصورت منظر تھا۔۔۔ سامنے ایک طویل سڑک تھی، شام کے ۶ ہونے والے تھے، جھٹپٹے کا سا سماں تھا۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بلڈنگ ہوا میں بنی ہوئی ہے ۳۱ ویں منزل سے نیچے جھانکا تو ایسا لگا کہ گاڑیاں چھوٹے چھوٹے کھلونے ہوں۔۔۔نظریں اٹھائیں تو ایک اسکول نظر آیا۔۔۔ شاید شام کی شفٹ کا اسٹاف جا رہا تھا۔۔۔ فٹ پاتھ پر اچھی خاصی رونق نظر آرہی تھی، ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔۔۔۔ مجھے بہت اچھا لگا یہ منظر۔۔۔ دور دور تک روشنیاں ٹمٹمانے لگیں تھیں، ایک بلڈنگ پر ایک بہت بڑا نیون سائن جل اٹھا تھا۔۔۔ بڑے دنوں کے بعد میں روشنی اور تاریکی کا یہ حسین ملاپ دیکھ رہا تھا۔۔۔ ورنہ صبح جب آفس جاتا تو سورج چمک رہا ہوتا تھا، اور جب واپس آتا تو اندھیرا ہوتا۔۔۔
اتنے میں میرے موبائیل کی موسیقی سنائی دی، میں نے جیب سے موبائیل نکالا ۔۔ گھر سے فون تھا،
کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔
نظارہ۔۔۔
کس کا۔۔۔بیگم نے کا کو کھینچتے ہوئے پوچھا
میں نے اسکول کی اندھیری عمارت کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ایک حسین و جمیل۔۔۔
بس بس پتہ ہے مجھے آپ کی حسین و جمیل۔۔۔ کو۔۔ آپ اپنی کوئی فائل گھر بھول گئے تھے، ابھی ابھی شہزاد بھائی آئے تھے، وہ لے گئے ہیں، کہ رہے تھے دفتر جا کر آپکو فون کر وں گا۔۔۔
ارے ہاں۔۔۔ اوہ۔۔ اب کیا کروں ۵۴ سال کی عمر ہے کچھ تو اثر ہو گا نا۔۔۔ آپکی طرح جوان تونہیں۔۔۔ میں نے بیگم کو چھیڑا
جی نہیں میں جوان نہیں ادھیڑ عمر ہوں ۔ ۔
جی جی۔۔۔ سولہ برس کی ادھیڑ عمر خاتون۔۔۔میں ہنسا۔۔۔۔اچھا اچھا اب زیادہ باتیں نہ بنائیں۔۔ کھانا کہاں سے کھائیں گے۔۔۔ بیگم نے بات بدلی۔۔۔ ارے دے دے گا اوپر والا، اچھا کل یاد سے چوچو کے ایگزام کی داخلہ فیس جمع کروا دینا، کل آخری تاریخ ہے۔۔۔
جی مجھے یاد ہے، اپنا خیال رکھیے گا،اور ہاں۔۔۔ ٹھنڈ لگے تو سویئٹر ضرور پہنیے گا۔۔۔
جو ملکہ عالیہ کا حکم!!!
اللہ حافظ
اللہ حافط۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے فون بند کیا
فیلٹ لاک کر کے نیچے اترا تو چوکیدار نے پوچھا
صاب کھانہ کھانے جاتا ہے؟
ہاں خان صاحب، ادھر اچھا ہوٹل کدھر ہو گا؟
صاب، ادھر سامنے ایک ہوٹل ہے، وہ اکرم صاحب بھی ادھر ہی کھاتا تھا۔۔۔مگر آپ کو تھوڑا چلنا پڑے گا۔۔۔۔
کوئی بات نہیں خان صاحب، ذرا سیرکرنے کا بہانہ بن جائے گا۔۔۔۔
سڑک پر لایٹس کی روشنی عجیب سماں باندھ رہی تھی۔۔ میں نے سڑک پار کر کے چلنا شروع کیا، عجیب علاقہ تھا۔۔۔ اکا دکا دوکان کھلی نظر آرہی تھی۔۔۔ میں چلتے چلتے اسکول کے پاس پہنچ گیا۔۔۔ ساری سڑک پر یہ ایریا بلکل سنسان اور تاریک تھا، اسکول جو تھا رات کہ بند ہو چکا تھا، عجیب پروہول عمارت تھی، اوپر سے ایسی نہیں لگی، مجھے وحشت سی ہونے لگی میں تیزی سے چلنے لگا۔۔۔اچانک مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے سرگوشی کی ہو۔۔۔ہوا بہت ہلکی چل رہی تھی۔۔۔ میں اسے ہوا کی آواز سمجھ کر نظر انداز کر گیا۔۔ اور اسکول کا ایریا کراس کر لیا۔۔۔ سامنے ہی مجھے ریستوران نظر آیا۔۔۔ میں جلدی سے اندر پہنچا۔۔۔ اور ویٹر کو کھانے کا آرڈر دیا۔۔واقعیٰ ہی کھانا لذیذ تھا۔۔۔میں کچھ زیادہ ہی کھا گیا۔۔۔ اس درمیان میں شہزاد کا فون آگیا۔۔۔میں نے بل ادا کر کے اپنی بلڈنگ کی طرف چلنا شروع کر دیا۔۔۔ ساتھ ساتھ شہزاد سے باتیں بھی کرتا جا رہا تھا۔۔۔ اچانک موبائیل میں سے عجیب سی چی چاں پوں پاں کی آواز آنے لگی۔۔۔ میں سمجھا کہ نیٹ ورک میں پروبلم ہے۔۔۔ میں نے فون کا سوئچ آف کر دیا۔۔۔ مگر یہ کیا۔۔۔ سوئچ آف ہونے کے بعد بھی آوازیں آرہیں تھیں۔۔۔ میں نے سوئچ کو دبایا۔۔مگر پھر آوازیں۔۔ میں نے ہیلو ہیلو کیا۔۔۔ مگر۔۔۔ کچھ نہیں ہوا۔۔ البتہ آواز یں فیڈآف ہونا شروع ہو گئیں۔۔۔میں نے سوچا یہ موبائیل میں کوئی پروبلم ہے۔۔چیج کر لوں گا کل ہی۔۔۔ ابھی میں چند قدم چلا ہی تھا۔۔کہ پھر پہلے جیسی سرگوشی سنائی دی۔۔۔اور اس دفعہ یہ سرگوشی واضح تھی۔۔۔ کوئی میرا نام لے رہا تھا ۔۔۔
نادر۔۔۔نادر۔۔۔
کک۔۔کک کون۔۔میں گھبرا گیا۔۔۔کیوں کہ میں اسکول کے ریسیپشن کے دروازے کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔ اچانک مجھے کچھ عجیب سا احساس۔۔ میں نے غور کیا۔۔ ریسیپشن کے کمرے کے بند دروازے سے ایک روشنی پھوٹ رہی تھی۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا۔۔۔ جیسے لیزر شو میں لایٹس ہوتیں ہیں۔۔۔ میں نے سوچا شاید کسی نے لایٹ آن چھوڑ دی ہو۔۔۔ میں نے چلنا شروع کیا۔۔سڑک سنسان ہو چکی تھی۔۔۔ دور دور تک کوئی ذی نفس نظر نہیں آ رہا تھا۔۔۔میری بلڈنگ بھی اندھیرے میں گھری دیکھائی دے رہی تھی۔۔۔میں نے چلتے چلتے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔عجیب حیرت انگیز منظر تھا۔۔۔ دروازے سے روشنی نکل کر دیوار پر پھیل رہی تھی۔۔۔ تھوڑی دیر میں۔۔۔ایسا لگا کہ وہ روشنی میری طرف بڑھ رہی ہے میں تیزی سے قدم اٹھانے لگا۔۔۔۔انجانا سا خوف میرے ذہن پر چھا رہا تھا۔۔۔اچانک مجھے پھر سرگوشی سنائی دی۔۔اور ایک دم جیسے ایک زور دار دھماکہ ہوا۔۔۔لیکن یہ دھماکہ میرے ذہن کے اندر ہوا تھا۔۔۔ روشنی میرے ساتھ والی دیوار پر پھیل رہی تھی۔۔۔ مرے قدم جیسے کسی غیر مرئی طاقت نے پکڑ لئیے تھے۔۔۔روشنی پوری دیوار پر پھیل رہی تھی۔۔۔ دیوار بلکل شفاف تھی۔۔۔لگتا تھا۔۔نئی نئی رنگ کی گئی ہے۔۔۔ روشنی نے آہستہ آہستہ ایک روپ اختیار کرنا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔اور چند سیکنڈمیں ایک خوبصورت عورت کی تصویر بن گئی۔۔۔ اسکے چہرے پر معصومیت پھیلی ہوئی تھی۔۔۔ اور اسکے لب ہل رہے تھے۔۔۔ اور سرگوشی سی آواز میرے لئے اب واضح ہو گئی تھی۔۔۔۔
ہماری مدد کرو۔۔۔۔ہماری مدد کرو۔۔ نادر ہماری مدد کرو۔۔۔
ایک مشینی انداز تھا آواز کا۔۔۔
کک کک کون ہو تم۔۔۔ اور میں تمہاری کیا مدد کروں۔۔۔۔
اپنے موبائیل کی بیٹری ہمیں دے دو۔۔۔
میں نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا۔۔۔ اب میں تھوڑا سنبھل چکا تھا۔۔۔
ہماری دنیا تمارے موبائیل کی بیٹری میں ہے۔۔۔اور تم نے اسے کل اوورچارج کر دیا تھا۔۔۔ جس سے ہماری کہکشاں غیر متوازن ہو گئی ہے۔۔۔ اور اگر تم نے اس کا استعمال نہ چھوڑا تو۔۔۔ہماری گلیکسی تباہ ہو جائے گی۔۔۔
مگر تم ہو کون؟۔۔۔۔
ہم۔۔۔ شوستر۔۔ ہیں۔۔۔
شوستر؟
ہاں۔۔اچانک۔۔۔ تصویر بدلنے لگی۔۔۔ اور سرگوشی ایک غراہٹ میں تبدیل ہوتی گئی
ہم شوستر ہیں۔۔۔۔ کالی کہکشاں کے رہنے والے۔۔۔ تصویر اب ایک خوفناک کیکڑے جیسے جانور میں بدل گئی تھی۔۔۔۔مگر جیسے اسکا جسم آنکھوں کا بنا ہوا ہو۔۔۔۔ صرف آنکھیں ہی آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔۔۔۔ اچانک مجھے کسی تیز رفتا ر گاڑی کی آواز آئی۔۔۔اور گاڑی میرے پاس سے زوں کی آواز سے گذر گئی۔۔۔اور اسکے ساتھ ہی وہ روشنی ایک دم بند ہو گئی۔۔۔جیسے کسی نے سوئچ آف کر دیا ہو۔۔۔اور ساتھ ہی میرے موبائیل کی موسیقی ابھرنے لگی۔۔۔۔
ہل ہل ہل لو۔۔۔میں نے ہکلاتے ہوئے موبائیل کو کان سے لگایا۔۔۔
کیا بات ہے اتنی دیر سے فون کر رہی ہوں۔۔۔ بند بند۔۔۔کیا سو گئے؟
نن نن نہیں۔۔۔ ارے آپ تو ایسے ہکلا رہے جیسے میں نے آپکی چوری پکڑی ہو۔۔۔ کیا چوری کر رہے تھے۔۔۔بیگم نے شوخ آواز سے پوچھا۔۔
کچھ نہیں۔۔۔پتہ نہیں موبائیل میں کچھ پروبلم ہے۔۔۔ میں نے ادھر ادھر دیکھ کر سڑک پار کی اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔بس ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی اسٹل منظر ہو۔۔۔۔ صرف اسکول والا ایریا ڈارک تھا۔۔۔ باقی روڈ لایٹس دور تک روشن تھیں۔۔۔ خان نے مجھے دیکھتے ہی سلام کے لئے ہاتھ اٹھایا۔۔۔ میں نے بھی ہاتھ سے جواب دیا۔۔۔ اچھا یار اب مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔ اور ابھی لفٹ میں موبائیل بند ہو جائے گا۔۔۔۔اگر فون نہ ملے تو پریشان نہ ہونا۔۔۔ موبائیل میں پروبلم ہے۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے۔۔۔اپنا خیال رکھیے گا۔۔اللہ حافظ۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔میں نے فون بند کیا۔۔۔ مگر یہ کیا۔۔۔فون کی سکرین پر نیلے حروف میں۔۔۔ ہماری مدد کرو۔۔۔لکھا ہواء نظر آ رہا تھا۔۔۔۔پھر الفاظ بدل گئے، میں نے لفٹ کے اندر داخل ہوکر ۳۱ کا نمبر دبا دیا مگر میری نظر فون پر ہی تھی۔۔۔جہاں اب۔۔۔شوستر کی مدد کرو۔۔ کا میسج آ رہا تھا۔۔۔لفٹ نے پانچویں منزل کراس کی تو میسج پھر چینج ہو گیا۔۔۔ ایک بار پھر اسی عورت کی تصویر نظر آئی۔۔۔ اسکے لب ہل رہے تھے۔۔۔ مگر وہ سرگوشی نہیں سنائی دی۔۔۔ کچھ دیر بعد شاید اسے بھی احساس ہوا۔۔۔ اسکے چہرے پر حیرت کے اثار تھے۔۔۔ اتنے میں لفٹ کی بیل بجی، میرا فلور آگیا تھا۔۔ میں نے تیزی سے اوپن ڈور کا بٹن دبانا چاہا۔۔ مگر غلطی سے ہاتھ ایمرجنسی بیل پر پڑ گیا۔۔۔ ایک تیز بیل سنائی دی۔۔۔اور میرا موبائیل میرے ہاتھ میں تھرا کر رہ گیا۔۔ میں نے دیکھا تو موبائیل ڈیڈ ہو چکا تھا۔۔۔ لفٹ ڈور کھل چکا تھا۔۔۔میں تیزی سے باہر نکلا اور تیزی سے اپنے فلیٹ کی طرف بھاگا چابی میرے ہاتھ میں تھی۔۔۔ کپکپاتے ہاتھوں سے میں نے دروازہ کھولا۔۔۔ اور کمرے کی لائٹ آن کر دی۔۔۔
خوش آمدید۔۔۔ میں اچھل پڑا۔۔۔ وہ ہی سرگوشی کی آواز تھی مگر اس دفعہ میرے سامنے کے صوفے پر وہ ہی عورت۔۔۔ جسمانی حالت میں موجود تھی۔۔۔ اسکے بدن پر۔۔۔ جیسے نیلے رنگ کی چادر لپٹی ہوئی تھی۔۔۔ مگر روشنی نہیں تھی۔۔۔ اور دوسری بات تھی۔۔۔کہ عورت کے چہرے پر۔۔ کرب کے اثار تھے۔۔۔۔
آپ کون ہیں۔۔۔ میں شاستر ہوں۔۔۔
اوہ دیکھیے محترمہ۔۔۔ مم۔۔ مم ادھر اکیلا ہوں۔۔۔ عزت دار انسان ہوں۔۔۔
اچانک اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی مگر بجھی بجھی سی۔۔۔ جیسے اسنے کسی دکھ کو چھپا رکھا ہو
نادر۔۔ہماری مدد کرو۔۔۔
میں کیسی مددکروں۔۔۔اب میں سنبھل چکا تھا۔۔۔
اپنی موبائیل بیٹری ہمیں دے دو۔۔۔
موبائیل بیٹڑی۔۔۔ مگر کیا ہے میرے موبائیل میں؟
ہماری کائنات۔۔۔شوستر کی کائنات
موبائیل میں کائنات۔۔میں ہنس دیا۔۔۔ تم ضرور کوئی جادوگرنی ہو۔۔۔ مجھے پھنسانا چاہ رہی ہو۔۔۔
میں جادوگرنی نہیں۔۔۔شوستر ہوں۔۔۔
دیکھو میں سائنس جانتا ہوں۔۔۔ کہکشاں۔۔۔ ایک بیٹری میں نہیں آ سکتی۔۔۔۔
وہ پہلی دفعہ کھلکھلا کر ہنس پڑی
تم سائنس کا صرف از صرف ادنا سا حصہ جانتے ہو۔۔۔مگر ہمیں اس وقت تمہاری ضرورت ہے۔۔۔ اسلئیے ہمیں خود کو تم پر ظاہر کرنا پڑا۔۔۔۔ ہم اس فلیٹ میں پھنس گئے ہیں۔۔۔ اور صرف تمہاری موبائیل کی بیٹری ہمیں آزادی دے سکتی ہے۔۔۔
تو یہ لو۔۔۔ میں ویسے بھی کل نیا موبائیل لوں گا۔۔۔ اب یہ میں نہیں رکھ سکتا۔۔۔ مگر اسکی چپ نکال لوں۔۔۔میں نے پوچھا
ہاں ہاں وہ ہمارے کام کی نہیں۔۔۔ تم موبائیل بھی نہ دو صرف بیٹری دو۔۔۔
اچھا۔۔۔ میں نے بیٹری نکال کر اسکی طرف بڑھائی۔۔۔ اچانک جیسے میرے جسم کو جھٹکا سا لگا۔۔۔ اور ایک گہرے نیلے رنگ کی روشنی میرے جسم پر جیسے چپکتی چلی گئی۔۔۔ اور بیٹری جیسے میرے ہاتھ سے چپک گئی ہو۔۔۔۔کمرے میں تیز روشنی پھیل گئی تھی۔۔۔ ایسے جیسے ہزاروں سورج اکٹھے نکل آئے ہوں۔۔۔ نادر اسکو بیٹری نا دینا۔۔۔۔ یہ ہماری دنیا کی مجرم ہے۔۔۔ مجھے ایک چیختی ہوئی آواز سنائی دی۔۔۔میں نے شوستر کی طرف دیکھا۔۔۔ وہ اب عورت نہیں تھی۔۔۔ وہ ہی آنکھوں والا جانور بن چکی تھی۔۔۔۔ میں نے دیکھا مجھ سے لپٹنے والی روشنی۔۔۔ کھڑکی سے آ رہی تھی۔۔۔جسے میں نے کھلا چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔ اور تھوڑی دیر میں روشنی نے ایک روپ دھار لیا۔۔۔ یہ ایک بہت خوبصورت جوان تھا۔۔۔
چیں چاں۔۔۔پوں پاں۔۔پی پی۔۔کاں پی
ہزار انکھوں والی مخلوق سے آواز آئی
جوان۔۔ کے لب ہلے۔۔۔
پک پک پوں پی۔۔۔چوں شاں کی پاں۔۔۔
اور اسکے ساتھ ہی اسکے ہاتھ میں ایک بوتل سی نظر آئی۔۔۔ مخلوق نے کھڑکی کی طرف اڑنا شروع کیا۔۔۔ مگر اسکی رفتار بہت آہستہ تھی۔۔۔ جوان نے بوتل کو منہ سے لگا یا اور پھر بوتل سے روشنی کی ایک دھار نکلی ایسا لگ رہا تھا ایک کالے رنگ کے دھاگے پر روشنی کی ملمع کاری کر دی گئی۔۔۔کالی روشنی۔۔۔ نے ہزار آنکھوں والی مخلوق کو۔۔۔ لپیٹ لیا۔۔ اور تھوڑی دیر میں وہ مخلوق۔۔۔ کالی روشنی میں بندھ چکی تھی۔۔۔ نوجوان نے میری طرف بوتل کا منہ کیا۔۔۔ مم مم مجھے کیوں مار رہے ہو۔۔۔ مگر اب بوتل سے ایک نیلی روشنی مجھ پر پڑرہی تھی۔۔۔ اور مجھے ایسا لگا جیسے میرے جسم میں توانائی آتی جا رہی ہو۔۔۔ اور میں دھڑام سے صوفے پر گر گیا۔۔۔ میرے ہاتھوں سے بیٹری بھی صوفے پر گری تھی۔۔۔ میں نے اسے اٹھایا۔۔ یہ ہے فساد کی جڑ۔۔ اور بیٹری کو کھڑکی کی طرف اچھال دیا۔۔ جوان جیسے اڑتا ہوا بیٹری کے پیچھے گیا۔۔۔ اور بیٹری پکڑ لی
پاگل ہو گئے ہو کیا۔۔۔ اسکی سرگوشی جیسی آواز ابھری
اتنی قیمتی چیز کو ایسے پھینک رہے ہو۔۔۔ واقعیٰ ہی انسان بے وقوف ہے۔۔۔
ارے تم لے لو۔۔۔ اور مجھے چھوڑ دو
ارے تم نے تو ہماری مدد کی ہے، شوستر کو پکڑنے میں۔۔۔ کیا مطلب میں نے شوستر کی طرف دیکھا جو اب کالی روشنی کا ایک ڈھیر لگ رہی تھی
میرا نام اکولا ہے، ہم لوگ، کالی کہکشاں کے رہنے والے ہیں، شوستر ہماری مجرم ہے، اس نے ہماری فوج کی کمانڈر کو قتل کر دیا تھا۔۔۔ مگر پکڑی گئی۔۔۔ کیونکہ یہ ایک طاقتور پُت پری ہے
پُت پری؟
ہاں ہمارے ایک سیارے کی ملکہ۔۔۔سارا سیارہ اسکی اولاد ہے۔۔۔اسلئیے یہ طاقتور بھی ہے۔۔۔ مگر ہماری کہکشاں کی کونسل نے اسے۔۔۔ کہکشاں بدری کی سزا دی، اور اسے تماری دنیا کی کہکشاں کے ایک بلیک ہول میں قید کر دیا گیا۔۔۔ مگر اس اسکول کے ایک اسٹوڈنٹ نے ایک لیزر اسی بلیک ہول پر فائر کی اسکی تصویر لینے اور اسکی ریٹرن میں یہ بھی روشنی کی شکل میں اس زمین پر آ گئی۔۔۔ یہ وقت وہی تھا۔۔۔جب تم کھانا کھانے جا رہے تھے۔۔۔ واپسی پر جب تمہارا موبائیل آن تھا تو اسکی الکائن بیٹری نے اسے ایک آئیڈیا سجھا دیا۔۔۔ کہ وہ ڈیجیٹل سگنل پے سوار ہو کر واپس اپنی گلیکسی میں پہنچ جائے گی۔۔۔ اسکے لئیے اسے انرجی کی ضرورت تھی جو تمہاری بیٹری میں تھی، اگر تمہاری بیٹری اوور چارج نہ ہوتی تو اسے کبھی یہ آئیڈیا نہ آتا۔۔
ہونہہ۔۔۔ مگر ابھی تم نے کہا کہ یہ بیٹری بہت قیمتی ہے۔۔۔
کیا تمہیں شک ہے، ذرا بتاؤ کہ تم نے موبائیل بند بھی کر دیا تھا۔۔ مگر پھر بھی اس پر میسج نظر آ رہے تھے۔۔۔ اصل میں آواز کی لہریں روشنی کی لہروں کو ڈسٹرب کر دیتی ہیں۔۔۔ اس لئیے اسے مشکل ہوئی۔۔۔ اور اس دوران میں اس نے بیٹری کی اوور چارجنگ کو استعمال کر کے اس کو آئی ای پی (انفانائیٹ انرجی پروڈیوسر)میں کنورٹ کر دیا۔۔۔
آئی ای پی، کیا مطلب
مطلب تمہاری یہ بیٹری اب کبھی ختم نہیں ہو گی
اوہ۔۔۔
اور یہ لو اسے سنبھال کہ رکھنا۔۔۔ اسنے ایک ڈسک نما سپول میری طرف بڑھایا۔۔۔ یہ۔۔ پُوں پُوں ہے۔۔۔ اس سے تم ساری کائنات کا کونہ کونہ دیکھ سکتے ہو۔۔۔میں نے دیکھا۔۔۔گول سپول میں ایک اسکرین تھی۔۔۔ جس پر اسی کمرے کا منظر تھا۔۔۔مگر اسمیں صرف میں تھا، نوجوان نہیں تھا۔۔۔ تم نہیں نظر آ رہے۔۔۔ یہاں پریس کرو۔۔۔ میں نے ایک سائیڈ پریس کی۔۔۔
واؤ۔۔۔ مجھے ایک ہزار آنکھوں والی امخلوق اپنے پاس نظر آئی مگر سکرین پر۔۔۔
نوجوان مسکرا رہا تھا۔۔۔
اچھا اب اجازت۔۔ ہمارا بہت وقت ضائع ہو گیا ہے۔۔۔ تمہارا بہت شکریہ۔۔۔۔ خدا حافظ
اسنے میری طرف ہاتھ بڑھایا۔۔میں نے ہاتھ اسکے ہاتھ میں دیا۔۔۔ ایک عجیب چپکتا ہوا اور پلپلا سا ہاتھ تھا۔۔۔ کیا تم بھی خدا کو مانتے ہو؟
تو کیا خدا صرف زمین کا خدا ہے؟ نوجوان کے لہجے میں طنز تھا۔۔۔میں چپ ہو گیا
نوجوان نے ایک ہاتھ سے بندھی ہوئی شوستر کو اٹھایا۔۔۔ ایک بار پھر شکریہ۔۔۔ہمیشہ ایسے ہی ضرورتمندوں کی مددکرنا۔۔۔ خدا حافظ
نوجوان آہستہ آہستہ اڑتا ہوا کھڑکی کے راستے آسمان کی وسعوتوں میں گم ہو گیا۔۔۔میں کافی دیر تک کھڑکی میں کھڑا رہا۔۔۔ پُوں پُوں میرے ہاتھ میں تھا۔۔۔ میں نے سوچا بیگم کو دیکھوں۔۔۔اسکرین پر میرے گھر کے بیڈ روم کا منظر ابھر آیا۔۔۔ یعنی جو سوچوں وہی جگہ دیکھوں۔۔واؤ
ارے بیگم فون پر میرا موبائیل نمبر ملا رہیں تھیں۔۔ اور موبائیل آف ہونے پر مجھے سنا رہی تھیں۔۔ ایک تو آنے دو یہ موبائیل ہی ریل کے نیچے رکھ دوں گی۔۔۔
میں نے جلدی سے صوفے پر بیٹری۔۔ کو اٹھا کر موبائیل میں ڈالا۔۔۔ اور موبائیل آن کر دیا اسی وقت لائن مل گئی۔۔۔ (میں نے چپ نہیں ڈالی تھی)
آپکو میرا کچھ خیال ہے۔۔۔؟ مجھے بلکل نیند نہیں آئی کہ آپ نے کچھ کھایا کہ نہیں۔۔۔
ارے یار کیا ہو گیا ہے تمہیں۔۔۔ میں کوئی پہلی بار گھر سے باہر نکلا ہوں؟
کہاں تھے۔۔ اور موبائیل کیوں بند کیا تھا۔۔۔
وہ وہ۔۔ وہ میں ایک فائدے کا سودا کر رہا تھا۔۔۔
ہاں پتہ ہے۔۔۔ فائدے کا سودا۔۔۔ آپ کا موبائیل تو اب کوئی خرید نہیں سکتا اس لئیے اسکا انتظام میں کروں گی۔۔۔ بیگم نے دانت پیسے
ارے ارے میری جان۔۔۔
جان کے کچھ لگتے۔۔۔
کیا لگتے۔۔۔۔
جائیے۔۔۔
اچھا جاتا ہوں میں نے موبائیل بند کر دیا۔۔۔اور بیگم کو پُوں پُوں پر دیکھنے لگا۔۔۔جو غصے سے لال پیلی ہو رہیں تھیں۔۔۔۔
مجھے تو دال میں کچھ کالا لگتا ہے۔۔۔ آخر کار وہ خود کلامی میں بولیں۔۔۔
دال تو واقعیٰ ہی کالی ہے بیگم صاحبہ۔۔۔
میں نے موبائیل پر گھر کے نمبر ڈائیل کئیے
بیگم صاحبہ دال ہی کالی ہے۔۔۔میرے منہ سے نکلا
آپ کو کیسے پتہ میں کیا سوچ رہی تھی۔۔۔
دل کو گردے سے راہ ہوتی ہے۔۔۔
اچھا۔۔۔ اور پھر میں باتیں کرتا کرتا سو گیا۔۔۔بیگم بھی۔۔۔۔
صبح ۰۱ بجے اٹھا۔۔۔ وہ بھی خان کے بیل بجانے پر۔۔۔ میں نے سوچا کہ خواب تھا یہ سارا۔۔۔
صاب۔۔۔ آپ کو ملنے کوئی آیا ہے
کون ہے۔۔۔
ایک عورت ہے۔۔۔
اچھا بھیج دو۔۔۔۔
میں نے تیزی سے اپنے کپڑے ٹھیک کئیے
صوفے کے کشن ٹھیک کئیے۔۔۔
ڈور بیل بجی۔۔۔
میں نے دروازہ کھولا۔۔۔
آ۔۔۔ تت۔۔ تم
میرے سامنے شوستر کھڑی تھی۔۔۔
کیا مطلب آپ مجھے جانتے ہیں؟۔۔۔ اسکے چہرے پر حیرت تھی۔۔۔
تت۔۔تم۔۔۔شوستر۔۔۔ہو
شوستر۔۔۔ جی نہیں۔۔۔ میں مسز شمائلہ آفتاب ہوں۔۔۔ سامنے کے اسکول کی پرنسپل ہوں۔۔۔ اب اسکے چہرے پر ناگواری تھی۔۔۔ ایک اسٹوڈنٹ کو آپ کا ویلٹ اسکول گیٹ کے سامنے ملا تھا۔۔۔ صبح سے کتنے فون کر کر کے آپ کا پتہ ملا ہے۔۔ تو پتہ چلا کہ۔۔۔ آپ یہاں ہیں تو میں خود آ گئی مجھے پتہ ہوتا کہ آپ اتنے ناشائستہ انسان ہیں۔۔ تو۔۔۔۔اسنے ویلٹ میرے ہاتھ میں دیا
ارے آئی ایم سوری۔۔۔ مگر وہ۔۔۔ لفٹ میں داخل ہو چکی تھی۔۔۔خدا حافظ
میں نے دروازہ بند کیا۔۔۔ عجیب حیرت انگیز اتفاق ہے۔۔۔میں بڑبڑایا۔۔۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔۔۔ کیا تمہیں آرام کے لئیے بھیجا گیا ہے، شہزاد کی آواز سنائی دی۔۔۔ارے یار رات بہت دیر سے سویا تھا۔۔۔ ہاں نئی جگہ میں ایسا ہوتا ہے۔۔۔ اوکے سیکنڈ ہاف میں ایک میٹنگ ہے تمہاری پہنچ جانا۔۔۔ ٹائیم پر
اوکے۔۔۔ باس۔۔۔شہزاد۔۔۔ اس فرم کا مالک تھا۔۔۔ مگر ہم لوگ دوست تھے۔۔۔بچپن کے
میں نے موبائیل آف کر دیا۔۔۔اسی لمحے۔۔مجھے سرگوشی کی آواز سنائی دی۔۔۔ میں نے غور کیا تو پتہ چلا کہ کشن کے نیچے سے آواز آرہی ہے۔۔۔ کشن ہٹایا تو۔۔۔ پُوں پُوں میرے سامنے تھا۔۔۔ اس میں ہزار آنکھوں والی مخلوق نظر آ رہی تھی۔۔۔ سرگوشی پھر سنائی دی۔۔۔
نادر صاحب۔۔۔شوستر نے بتایا ہے، کہ وہ آپکی بلڈنگ کے سامنے کے اسکول میں اتری تھی اورآپ کے سامنے اسکول کی پرنسپل کی شکل میں ملی تھی۔۔۔ اور آپکا ویلٹ بھی اس نے وہاں گرا دیا تھا۔۔
ہاں مجھے پتہ چل گیا ہے۔۔۔ مگر تم نے دیر کر دی بتانے میں۔۔۔
اصل میں میرا اور ٹائیم چل رہا تھا۔۔۔
کس چیز کا۔۔۔
میں اصل میں وقت سے کچھ آگے گیا تھا۔۔ اسلئیے مجھے پروبلم ہو گئی تھی۔۔۔
کیسی پروبلم۔۔۔
آپکی سمجھ میں نہیں آئے گی،ابھی آپ لوگ وقت کو کنٹرول نہیں کر پائے۔۔۔صرف یہ پوں پوں جیسا فون ہی بنانے میں آپ کو چار پانچ صدیاں لگ جائیں گیں۔۔۔
ارے یہ پُوں پُوں فون ہے؟؟۔۔۔۔
ہاں۔۔۔ مگر دوسری طرف آپ کو سننے والاآپکو جن سمجھے گا کہ آپ نظر نہیں آ رہے ہوں گے۔۔۔۔پھر مجھے اسنے اسکے استعمال کا طریقہ بتانا شروع کیا۔۔۔
کیا اسمیں ایف ون نہیں ہے؟
ایف ون کیا؟
ارے بابا ہیلپ۔۔۔
اوہ سمجھ گیا، آپکے کمپوٹرز میں ہوتی ہے، ہے تو سہی مگر آپکو سمجھ نہیں آئے گی۔۔۔
کیا ایسے ٹرانسلیٹ نہیں ہو سکتی۔۔۔یعنی پکچر کی شکل میں۔۔۔
ہاں ہاں۔۔۔ تھوڑا انتطار کریں۔۔۔اور پوں پوں سے تھوڑا دور ہو جائیں۔۔۔
میں نے ایسا ہی کیا۔۔۔
پوں پوں سے سرخ رنگ کی روشنی نکلی اور پھر پوں پوں ایک سرخ گولا بن گیا۔۔۔تھوڑی دیر بعد سرخ روشنی غائب ہو گئی۔۔ اکولا کی آواز آئی۔۔
اب اسکے سب سے اوپر والے گول پھول پر دو بار آہستہ آہستہ مارئیے
میں نے ایسا کیا تو اسکرین پر جیسے ایک انسٹرکشن مووی چلنے لگی۔۔۔
واؤ۔۔۔۔
یہ تو کمال چیز ہے۔۔۔
ہاں ہے۔۔ تو۔۔ آزمائیش شرط ہے
ہماری مدد کرنے کا انعام شکریہ کے ساتھ، ہمارے بادشاہ بھی آپکے شکر گذار ہیں اسکے ساتھ ہی ایک اور ہزار آنکھوں والی تصویر ابھری اور پھر ایک سر سراتی ہوئی آواز آئی
ہم آپکے بہت شکر گذار ہیں۔۔۔ آپنے ہماری سب سے بڑی دشمن کو پکڑنے میں مدد کی۔۔اور ہمیں تباہی سے بچایا۔۔ ہماری پوری کہکشاں آپکی احسانمند ہے۔۔۔
جی بس مجھ سے ہو گیا۔۔۔ احسان کی کیا بات۔۔۔
خدا تمہیں خوش رکھے۔۔۔
میں کیا کہتا۔۔۔جی خدا حافظ
اچھا۔۔۔ اب پھر بعد میں بات ہو گی۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔
خدا حافظ۔۔۔میں نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا
یعنی یہ خواب نہیں تھا۔۔۔ ارے بارہ ہو گئے۔۔میں بھاگم بھاگم دفتر کے لئے تیار ہوا۔۔۔
اس دن کے بعد سے میری زندگی میں جو تبدیلی آئی اسکی وجہ سے۔۔۔ میں آج ایک گروپ آف کمپنیز کا مالک ہوں۔۔۔ اور یہ سب پوں پوں کا کمال ہے۔۔۔ جسکا صرف بیگم کو اور مجھے پتہ ہے۔۔۔
اور ہاں۔۔۔ اس دن کے بعد سے وہ موبائیل کبھی بھی چارج نہیں کیا اور نہ ہی۔۔۔کبھی اسکا کوئی بل آیا۔۔۔ کہ اس میں کوئی چپ ہی نہیں تھی۔۔۔ اور دوسری طرف صرف ایک نمبر آتا تھا۔۔۔ جو تھا ۔۔۔ ۳۰۳۱۔۔۔ یعنی اس فلیٹ کا نمبر جہاں یہ سب واقعہ ہوا تھا۔۔۔ اور ہاں وہ اسکول اور بلڈنگ اب میری ملکیت ہیں۔۔۔اور اسکول کی پرنسپل میری ہی ایک کمپنی میں ایم ڈی ہیں۔۔۔ یہ الگ بات کہ میں ہمیشہ ان سے ملنے سے کتراتا ہوں۔۔۔اور وہ ابھی تک اس کو میری مغرور اور خود سر طبیت سمجھتیں ہیں۔۔۔اور میں مسکرا کر رہ جاتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد۔۔۔۔۔۔

راون

راون
اظہر الحق(1990)
آج مندر میں بہت رونق تھی، بڑے مندر کے پنڈت آ رہے تھے، موسی تو صبح سے ہی مندر میں تھی اور مورتی کو سجا رہی تھی ۔۔۔۔ ایک طرف بھجن گائے جا رہے تھے ۔۔ دوسری طرف مرد عورتیں سردھن رہے تھے، بچے بار بار، پرشاد کی تھالیوں پر للچائی ہوئی نظریں ڈالتے اور پھر مندر کی سیڑھیوں پر ۔۔۔ مگر ابھی تک پجاری جی نظر نہیں آئے تھے۔۔
اچانک ایک ٹرک کی آواز آئی، لوگوں نے سوچا کہہ پنڈت جی آگئے۔۔۔ سب لوگ مندر کی سیڑھیوں میں کھڑے ہو گئے ۔۔۔ان کے ہاتھ میں تازے پھولوں کی مالائیں بھی تھی ۔۔۔ وہ ایک نہیں دو فوجی ٹرک تھے، جن کے آگے ایک جیپ تھی ۔۔۔ جیپ مندر کی سیڑھیوں کے آگے آ کہہ رکی ۔۔۔ اس میں سے ایک کیپٹن نیچے اترا ۔ ۔۔
پارووتی کا گھر کون سا ہے؟
پارووتی ۔۔۔ ماسٹر جی نے آگے ہوتے ہوئے فوجی بابو سے پوچھا ۔ ۔
ہاں ہاں۔۔۔ پارووتی ۔۔۔
ارے ماشٹر جی وہ اپنی موسی پارووتی کا پوچھت ہیں پھوجی بابو۔۔۔
ہاں پھوجی بابو۔۔۔ادھر تو ایک ہی پارووتی ہوے ہے، موسی ،۔۔۔۔۔ ارے مکیس جرا جا کہ موسی کو تو بلا لا۔۔۔ وہ ماتا کے قدموں میں ہی بھیٹھی رہتی ہے۔۔ ۔ بڑی بھاگوان ہے ۔۔۔
اسکا بیٹارام ہے؟
ہاں ہاں وہ ہی۔۔۔۔ وہ بھی پھوجی ہے تہاری طرح۔۔۔
وہ کشمیر میں شہید ہو گیا ہے ۔۔۔۔
سہید ہو گیا ہے، یہ سہید کیا ہووے ہے پھوجی بابو
ادھر مارا گیا ہے، درشٹ پاکستانی آتنک وادیوں کے ہاتھوں۔۔۔
آتنک وادیوں کے ہاتھوں ۔۔۔ ایک نوجوان نے آگے بڑھ کہ حیرانی سے پوچھا۔۔۔ ہم تو روز یہ سنتے ہیں کہ ادھر آتنک وادی مارے جاتے ہیں ۔۔۔
ارے کیا بات کرتے ہو۔۔ بچے صبح سے یہ چوتھی لاش دے رہے ہیں ۔۔۔ ایک سکھ فوجی نے لقمہ دیا ۔۔۔
مان سنگھ۔۔۔ دس از پبلک پلیس ۔۔۔ڈونٹ یو انڈرسٹینڈ۔۔۔
سور ی سر جی وہ۔ ۔۔
اتنے میں موسی باہر آئی ۔۔۔
میں ہوں پارووتی ۔۔۔ پھوجی بابو ۔۔۔رام میرا بیٹا ہے ۔۔۔
رام وطن کی رکھشا میں شہید ہو گیا ہے ۔۔۔ آتنک وادیوں کے ہاتھوں ۔۔۔
رام شہید ہو گیا ہے ۔۔۔ اسے مار دیا ہے ۔۔۔ موسی مندر کی آخری سیڑہی پر سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔۔۔ ماتا ۔۔ تو نے کیا کیا۔۔۔ میرے جیون کا سہارا لے لیا ۔۔۔ اس کے بین سن کر سارے مندر میں اداسی سی چھا گئی ۔۔۔ پچھلے ٹرک سے ۔۔۔ ترنگے میں لپٹا ہوا تابوت اتارا گیا ۔۔ ۔ اور پریڈ کے انداز میں ۔۔ ۔ اسے رکھا گیا ۔۔۔
ماسٹر جی نے ارتھی لانے کو کہا اور ۔۔۔ رام کی میت کو ۔۔۔ تابوت سے نکالا گیا ۔ ۔۔ اسکا چہرہ ۔۔۔ خراشوں سے بھرا ہوا تھا۔۔۔موسی اس سے لپٹ گئی ۔۔۔۔۔ رام میرا بچہ۔۔۔ بھگوان تو نے یہ کیا کر دیا ۔۔۔ وہ رو رہی تھی ۔۔۔ چلا رہی تھی ۔۔۔ مگر جانے کیا سوچا اسنے اور پھر روتے روتے رک گئی ۔۔۔ اور آسمان کی طرف نظر اٹھا کر بولی ۔۔۔ دیکھ ماتا ۔۔۔ میں نے اپنا بیٹا بھارت ماتا پر دان کر دیا ہے ۔۔۔ کسمیر اٹوٹ انگ ہے ۔۔۔ کوئی سملہ نہیں ۔۔۔ کسمیر ہمارا ہے ۔۔ ۔ درشٹ پاکستانیوں کا نہیں۔۔۔ وہ رو ز روز کے جملے دہرا رہی تھی ۔۔۔ کہ کہیں سے ۔۔ ایک کیمرامین آ گیا ۔۔۔ موسی ابھی جو کہا ہے دوبارہ کہو ۔۔۔
پھر تو جیسے موسی نے تقریر شروع کر دی ۔۔۔ میرا بیٹا بھارت ماتا کی رکھشا میں سہید ہواء ہے ۔۔۔ کسمیر کی رکھشا میں شہید ہوا ہے ۔۔۔ کشمیر اٹوٹ انگ ہے ۔۔ کوئی ٹرٹی (ٹریٹی) نہیں ۔۔ کوئی سملہ نہیں ۔۔۔ کوئی لاہور نہیں ۔۔۔۔
اسکی نظر رام پر گئی ۔۔۔ اور پھر وہ میت سے لپٹ گئی ۔۔۔ رام ۔۔ میرا رام ۔ ۔میرا بیٹا۔۔ وہ اسکو چومنے لگی ۔۔۔ اچانک اسنے اسکے سیدھے ہاتھ کو چوما تو اسکی مٹھی بند تھی ۔ ۔۔ اس نے حیرانی سے اسے دیکھا ۔۔۔ اسمیں ایک پھولدار کپڑا پھنسا ہوا تھا۔۔۔ اسپر ایک بٹن بھی تھا ۔۔۔ موسی نے وہ کپڑا کھینچا ۔۔ ۔۔اور اسے تھوڑی دیر تک دیکھتی رہی۔۔ ۔
پھر اسنے اچانک ۔۔ رام پر تھپڑ برسانے شروع کر دئیے ۔۔ ۔۔ تو پاپی ۔۔ تو نے کس سیتا کو نوچا ہے ۔۔ ہتھیارے ۔ ۔۔ تونے کس کی لاج لوٹی ہے ۔۔۔۔ تو رام نہیں تو راون ہے تو رام نہیں تو راون ہے ۔۔ ماتا تونے یہ کیا کیا ۔۔۔ میری تپسیا کا ایسا پھل ۔۔۔ کیوں دیا ۔ ۔۔ ماتا تو نے کیا کیا ۔ ۔۔ اور وہ مندر کی سیڑھیاں چڑھتی چلی گئی ۔۔۔۔
کیمرا مین نے ۔۔۔ اس کپٹرے کے ٹکڑے کو فوکس کیا ۔۔۔ جوہوا پر اڑتا جا رہا تھا ۔۔۔۔ اور پھر اگلے گھنٹے کی خبروں میں موسی کو ۔۔ اپنے بیٹے کی میت پر دوہتھڑ برساتے ہوئے دیکھایا گیا ۔۔۔ اور ساتھ ہی ۔۔۔ ایک کپڑے کا ٹکڑا اڑتا ہوا دیکھایا گیا ۔۔ اور سکرین پر الفا ظ ابھرے۔۔۔
کشمیر کونفلکٹ (Kashmir Confilict)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مثلث

میں سٹوڈیو سے نکل کر ہمیشہ کی طرح بوفیز میں پہنچا تو دیکھا کہ میری مخصوص میز پر کچھ الٹرا ماڈرن قسم کی لڑکیوں نے قبضہ کیا تھا، ویٹر جو میری پسندیدہ جگہ جانتا تھا، میری طرف دیکھ کر مجبور سی مسکراہٹ کے ساتھ ایک خالی میز کی طرف اشارہ کیا، میں بھی مسکرا کر ابھی کرسی پیچھے کر ہی رہا تھا کہ ایک آواز آئی
ارے اطہر تم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اوہ عابد ۔ ۔۔ ۔ تم ۔۔۔ ۔
پھر ہم گرمجوشی سے گلے ملے ، یار تم ، کہاں ہوتے ، یار تم مجھے بھول جاؤ گے یہ تو میں سوچ بھی نہیں سکتا،
ارے ملتے ہی گلے، میں نے منہ بنا کر کہا
ہاں گلہ نہ کروں تو کیا کروں پتہ ہے پورے تین سال بعد ملے ہو، انسٹی ٹیوٹ کے بعد ۔ ۔۔ اسکے الفاظ مجھے ماضی میں لے گئے
ہاں، تین سال ، آٹھ مہینے ، بارہ دن ، چار گھنٹے ۔ ۔۔ میرے منہ سے الفاظ جیسے بہنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔
ہونہہ ، ابھی بھی وہیں ہو ۔ ۔ ۔ ۔ عابد کا لہجہ عجیب ہو گیا،
پتہ نہیں، میں جیسے کسی گہری نیند سے جاگا تھا، ارے یار، مجھے تو بھوک لگ رہی ہے ، قسم سے پچھلے پانچ گھنٹے سے کچھ نہیں کھایا ۔۔ ۔ ۔۔
اطہر ، ا ب کیا کہوں تم سے ،ذرا بھی نہیں بدلے ۔ ۔ ۔
کیسے بدلوں ۔ ۔ ۔
یار سچی بات تو یہ ہے کہ ، میں تم سے کافی عرصے سے ملنا چاہتا تھا، اور وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا
ارے یار چائے تو پی لو،
نہیں یار، دیر ہو جائے گی ، اور میری بی وی مجھے گھر میں گھسنے نہیں دے گی ۔۔ ۔
ہیں ۔۔۔ تم نے شادی کر لی ۔ ۔۔ کب
یار تم میرے ساتھ گھر چلو ، میں نے اسکے لہجے میں ایک عجیب سی بے بسی محسوس کی ۔ ۔ ۔ وہیں کھانا کھا لیں گے
مگر ۔۔۔ میں نے عابد کی آنکھوں میں التجا دیکھی تو بول اٹھا
ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے ، میں بھی گھر فون کر لوں ۔ ۔ ۔
تو کیا تم نے بھی ۔ ۔ ۔۔ ۔
ارے نہیں یار ، میں تو آوارہ پنچھی ہوں ۔ ۔ ۔ اکیلا ہی ان سڑکوں کا راہی ، ہم سڑک پر تھے ، عابد ایک ٹیکسی کو روک چکا تھا ، وہ دراصل ماما پریشان ہو جاتیں ہیں ۔ ۔
یار گھر سے ہی کر لینا ، وہ میرے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا، آنٹی کیسی ہیں ،
اچھی ہیں ، تمہیں کبھی کبھی یاد کرتیں ہیں ۔۔۔۔
اور تم ۔ ۔ ۔
میں تو صرف ایک ہی یاد کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو ۔۔ ۔
میں اسی کے سلسلے میں تم سے ملنا چاہتا تھا، عابد نے مجھے چونکا دیا
رافعہ کے لئے ۔۔۔ میرے منہ سے نکلا
ہاں ۔۔ ۔ مگر پھر ایک دم اسکا لہجہ بدل گیا، میں بھی کیا ذکر لے بیٹھا
نہیں عابد آج بہت دن بعد میرے ہونٹوں پر اسکا نام آیا ہے، میں تو ۔۔ ۔ میں تو ۔ ۔ ۔
دھیرے یار ۔۔ ۔ میری آواز شاید کافی بلند ہو گئی تھی، میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں ۔ ۔۔
کیا ، ۔ ۔ ۔ مجھے اسکا لہجہ بہت پرسرار لگا ۔ ۔ ۔
دیکھ ہی لو گے ۔ ۔ ۔اس نے چپ سادھ لی ۔ ۔ ۔ ٹیکسی جانی پہچانی سڑکوں سے گذرنے لگی ، پھر ایک موڑ پر میں چونک اٹھا ، اسی موڑ پر میں پہلی بار رافعہ سے ملا تھا، اور پھر اسی کا ہو کر رہ گیا تھا، مگر اسنے مجھے ٹھکرا دیا تھا ۔ ۔ ۔ بہرحال عابد میرا ہمراز دوست تھا، ہم تینوں کلاس فیلو تھے ، ٹیکسی انٹی ٹیوٹ کے سامنے سے گذر رہی تھی ۔ ۔۔ ۔

اطہر تمہیں یہ جگہ یاد ہے ؟ ۔۔۔ ۔
ہاں ۔ ۔۔ ۔ یہ بھول سکتا ہوں میں ۔ ۔ ۔ میں جب بھی ادھر سے گذرتا ہوں ۔ ۔۔ تو بہت کچھ یاد آتا ہے ۔ ۔ ۔ بہت کچھ میں نے گہری سانس لی ۔ ۔ ۔ مگر کافی عرصہ ہوا ادھر آیا نہیں ۔ ۔ ۔ پتہ نہیں کیا کچھ بدل گیا ہو ۔ ۔ ۔
بہت بدل گیا ہے ، سب پرانے لوگ چلے گئے ہیں ۔۔ ۔ ۔ نئے ٹیچر ہیں سارے ۔ ۔ ۔ ۔
ہاں ۔ ۔ ۔ پرانے لوگ چلے ہی جاتے ہیں۔ ۔ ۔ مگر یادیں کبھی پرانی نہیں ہوتیں ۔ ۔ ۔ کبھی نہیں جاتیں کہیں نہیں جاتیں ۔ ۔ ۔
لگتا ہے تم ابھی تک اسی شاک میں ہو ، کچھ نہیں بھولے
کون بھول سکتا ہے اس طرح ٹھکرائے جانے کو ۔ ۔ ۔

ہاں میں نے تمہارے کچھ ڈرامے دیکھے ہیں ، ان میں تمہارا یہ احساس مجھے بہت نمایاں نظر آتا ہے ۔ ۔ اور تم خود ایسے رول بھی تو کرتے ہو ۔ ۔اسنے ٹیکسی کو ایک سڑک پر مڑنے کا اشارہ کیا ۔ ۔ ۔
ہونہہ ۔ ۔۔ شاید صحیح کہ رہے ہو ۔ ۔ ۔ آں ۔ ۔ تم نے اپنی شادی کا نہیں بتایا کب ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔میں نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا ۔ ۔ ۔
بتا دوں گا ، ہاں ادھر روک دینا ۔ ۔ ۔ عابد نے ٹیکسی ڈرائیور کو رکنے کو کہا ۔۔ ۔اور اپنا ویلٹ نکال کر کرایہ ادا کر دیا
لو بھائی یہ ہے ہمارا غریب خانہ ۔ ۔۔ عابد نے میرے ہاتھ سے سکرپٹ لیتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔
ہونہہ ۔ ۔۔ غریب خانہ ۔ ۔ میں نے اسکے وصیح و عریض بنگلے پر نظر ڈوڑائی ۔۔ ۔عابد نے بیل پر ہاتھ رکھ دیا
گاڑی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ میں نے پتہ نہیں کیوں پوچھا
یار دونوں ورکشاپ میں ہیں ۔ ۔ آفس کی گاڑی یوز کر رہا ہوں ۔۔۔ آجکل ۔ ۔۔
دروازہ کسی ملازمہ نے کھولا تھا ، عابد میرا ہاتھ پکڑ کر اند ر داخل ہو ۔۔ ۔ وعلیکم سلام ۔ ۔ رجو ۔ ۔ بیگم صاحبْہ کہاں ہیں ، عابد نے اسکے سلام کا جواب دیا
وہ جی اپنے کمرے میں آرام کر رہی ہیں
جاؤ ان سے کہو اپنے ہاتھ کی اچھی سی چائے بنا لائیں، آج ایک بہت ہی خاص مہمان ہمارے گھر آیا ۔ ۔ ۔ مجھے پتہ نہیں کیوں عابد کا لہجہ کھوکھلا لگا ۔ ۔
اچھا جی ۔ ۔ رجو دوسری طرف مڑ گئی ، آؤ اطہر ۔ ۔ وہ مجھے ایک طرف کھنچ کر ڈرائنگ روم میں لے گیا ۔ ۔ ۔
واہ بھئی خوب ٹھاٹھ ہیں، میں نے سجاوٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ۔ ۔
بس یار ۔ ۔ ۔اللہ کا کرم ہے ، اور ہماری بیگم صاحبْہ کا کمال ہے، اچھا تم کیا کر رہے ہو آج کل اداکاری و فنکاری کے علاوہ
اداکاری کے علاوہ بھی اداکاری ہی کر رہا ہوں زندگی کے سٹیج پر ، میں نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔ اور تم ؟؟
ایک فرم کا ڈائریکٹر ہوں ۔ ڈرامے کا نہیں ، کام کا ۔ ۔
میں ہنس دیا ۔ ۔ ۔ پھر کچھ دیر ہم خاموش ہو گئے ۔ ۔۔ جیسے کچھ کہنے کو نہ ہو، کہ اندر والے دروزے سے کھڑکھڑاہٹ کی آواز آئی ۔ ۔ ۔ ۔
لو بھئی چائے آگئی اور ہماری بیگم بھی ، میں اٹھ کھڑا ہوا، عابد کہ رہا تھا، یہ میرے دوست ۔۔ ۔ ۔ مگر نہیں تمہیں تعارف کی کیا ضرورت ، تم تو ایک دوسرے کو جانتے ہو

پھر میری آنکھیں جیسے چندھیا گئیں، ایک دھچکا سا لگا دل کو ، زبان کنگ ہو گئی ۔ ۔ ۔۔ میرے منہ سے اتنا ہی نکلا ۔ ۔

رافعہ ۔ ۔۔ آپ ۔۔۔۔۔۔ عا۔۔۔۔بد ۔۔۔۔۔ یہ یہ ۔۔۔۔ میرا سر چکراتا ہوا محسوس ہوا، آنکھوں میں ایک دم اندھیرا چھا گیا ۔۔۔۔ میرے سامنے ، میری تمنا، میری آرزو، میری چاہت ۔۔۔ رافعہ ۔۔۔۔عابد کی بی وی کے روپ میں کھڑی تھی ۔۔۔۔ وہ ہی رافعہ جس نے مجھے ٹھکڑا دیا تھا، میں صوفے میں گرتا چلا گیا ، عابد میری کیفیت سمجھ چکا تھا ارے ارے کر کے میری طرف لپکا ۔۔ ۔ اور پھر جیسے میں بے ہوش ہو گیا ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اطہر، اطہر کیا ہوا، آنکھیں کھولو ۔۔ ۔ ۔اسکے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا ۔ ۔۔۔ایک ہلکی سی سسکی سنی میں نے ، عابد مجھے سہارا دے کر اٹھا رہا تھا، مگر میں نے اسے اشارے سے منع کر دیا،میں ٹھیک ہوں۔ ۔۔ ۔ یہ سب ۔۔۔ یہ سب کیا خواب ہے ؟ میں نے لڑکھڑاتے ہوئے لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔
نہیں ، یہ حقیقت ہے، بھیانک حقیقت ، تمہارے لئے بھی اور میرے لئے بھی ۔۔۔۔وہ مجھ سے نظر چراتے ہوئے بولا
مگر مگر یہ ہوا کیسے ۔۔۔۔ تم تم تو اسے صحیح طرح سے جانتے بھی نہ تھے ۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ ہے کہاں ۔۔۔ میں نے رافعہ کمرے میں نہ پا کر بولا
اپنے کمرے میں چلی گئی ہے ، کہ رہی تھی مجھے تمہیں ادھر نہیں لانا چاہیے تھا، وہ ایک لمبی سی سانس لے کر بولا
ہاں ٹھیک ہی تو کہ رہی ہے ، مجھے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ مجھے چلا جانا چاہیے ، میں اٹھ کھڑا ہواء

نہیں تم نہیں جاؤ گے۔۔۔ تمہیں وہ سب جاننا ہو گا جو میرے ساتھ ہواء ، اطہر قدرت کے اس مذاق پر میں بھی ہنسوں گا تم بھی ہنسو گے ، اسنے مجھے کندھوں سے پکڑ کر بیٹھا دیا
نہیں یار میں تمہاری زندگی میں زہر نہیں گھولنا چاہتا۔ ۔۔ میں نے ایک بار پھر اٹھنے کی کوشش کی
اور خود کڑہ کڑہ کر مرنا چاہتے ہو ؟ عابد نے تیز لہجے میں جواب دیا
یکطرفہ محبت کا یہی انجام ہوتا ہے ، میری آواز بھرا گئی
یکطرفہ ، وہ چیخ اٹھا ، کس نے کہا کہ تمہاری محبت یکطرفہ تھی، کس نے کہا؟ اسنے ایک بار پھر مجھے بٹھا دیا اور میرے پہلو میں آبیٹھا
یکطرفہ نہیں تو اور کیا ۔۔۔۔ اسنے کبھی میرے متعلق سوچا ہی نہ تھا
جھوٹ ہے یہ۔۔۔ وہ تمہیں چاہتی تھی ۔ ۔۔ اور ۔۔۔ اور شاید چاہتی ہے ۔ ۔۔ تمہیں پتہ ہے تمہارے سارے ڈراموں کا انتخاب ہے اسکے پاس اور اکثر تمہارے سین باربار دیکھتی ہے
تمہارے سامنے ، میں نے حیرت سے پوچھا
ہاں اس نے مجھ سے کچھ نہیں چھپایا ۔ ۔ ۔ اپنی زندگی کا ایک ایک پل مجھ پر عیاں کر دیا ، وہ محبت کی پیاسی تھی ۔۔۔ اسے بھی چاہے جانے کا ارمان تھا ۔۔۔ میں نے اسے پیار دیا ۔ ۔ ۔ مگر شاید عابد کا نہیں ۔ ۔۔ تمہارا ۔ ۔ ۔ اطہر کا۔ ۔۔ وہ تمہیں اب بھی چاہتی ہے اطہر ۔ ۔ ۔ اب بھی ۔ ۔ ۔

وہ مجھے اب بھی چاہتی ہے ، میرے دل میں ایک لہر اٹھی ، وہ مجھے چاہتی ہے مگر وہ تو اسکی بیوی ہے ۔۔۔۔ اور یہ وہ سب مجھے کیوں بتا رہا ہے ۔۔ ۔ میں سوچ رہا تھا مگر کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا وہ کہ رہا تھا

اطہر وہ تمہیں چاہتی ہے ، پہلے بھی چاہتی تھی اب بھی چاہتی ہے
نہیں نہیں ۔۔۔ میں چیخ اٹھا۔۔۔ اسنے کبھی مجھے نہیں چاہا۔۔۔ تم لوگوں کے سامنے انکار کیا تھا ۔۔ ۔ نہیں عابد اسنے مجھے کبھی نہیں چاہا ۔ ۔ ۔
اطہر تمہیں اصل حالات کا علم نہیں۔۔۔ تمہیں مسرت یاد ہے، وہی جس کے تھرو تم نے اس تک پیغام پہنچایا تھا ۔ ۔۔ ارے وہ لمبی سی لڑکی۔ ۔ ۔ اسکی ایک ہی تو سہیلی تھی ۔ ۔۔
ہاں ہاں مجھے یاد ہے ، میں نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا
وہی اصل کردار ہے تمہارے ڈرامے کی ۔ ۔
وہ ۔۔۔ مگر کیسے ۔۔۔ میں حیران ہو گیا تھا
میں تمہیں تفصیل بتاتا ہوں
نہیں عابد مجھے اندھیرے میں ہی رہنے دو ، میں تمہاری زندگی کوخراب نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔ مجھے اندھیرے میں ہی رہنے دو ، ایسا نہ ہو کہ ۔ ۔۔ میں ۔۔۔۔ میں ۔۔۔ میرا سر جھک گیا ۔ ۔ ۔
نہیں اطہر ۔۔۔ تمہیں جاننا ہو گا ۔۔۔ تم گھر فون کر کہ بتا دو کہ آج رات تم یہاں رہو گے میرے پاس ۔ ۔۔
تمہارے پاس۔۔۔۔
ہاں میرے پاس ۔۔۔ گھر کا نمبر بتاؤ ۔۔ اسنے کارڈلیس اٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔ اور پھرمیں گھر میں بتا دیا

رجو ۔۔رجو ۔۔۔ کھانا تیار ہو گیا ہے کیا ۔۔۔ عابد نے آواز لگائی۔۔۔۔
رجو چلی گئی ہے ۔۔۔۔۔
وہ کمرے میں داخل ہوئی تو میرے دل میں پھر سے وہی ہلچل شروع ہو گئی۔۔۔ مگر خود کو سنبھالنا پڑا۔۔۔۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا۔۔۔ اسکی مترنم آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ روئی تھی
چلیں کھانا لگا دیا ہے میں نے
مجھے اسکی آواز کوسوں دور محسوس ہوئی ، حتہ کہ ہمارے درمیان فاصلہ بہت کم تھا۔۔۔ ہم کھانے کی میز پر آئے ۔۔۔ کھانا خاموشی سے کھایا گیا۔۔۔ بلکہ کیا کھایا گیا ۔۔۔ میں تو چمچ اور کانٹے سے کھیلتا رہا ۔۔۔ اور شاید وہ دونوں بھی ۔۔۔ کھانے کے بعد ہم صوفوں پر بیٹھ گئے
اطہر چائے پیو گے ۔۔۔ عابد نے پوچھا
نہیں
تم نے کچھ کھایا بھی تو نہیں
میں زیادہ نہیں کھاتا ۔۔۔ تم تو جانتے ہی ہو
ہاں جانتا ہوں
اچھا اب جانے دو مجھے
کیسے جانے دوں ابھی تو کوئی بات ہوئی ہی نہیں
نہیں عابد میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا
عابد نے میرے لہجے کی سختی محسوس کی تو وہ رافعہ کی طرف مڑا
رافعہ تم اسے حقیقت بتاؤ
حقیقت ۔۔۔ رافعہ کے منہ سے نکلا۔۔۔۔ آپ جانتے ہیں کہ اب میں سب بھول جانا چاہتی ہوں۔۔۔ میری حقیقت صرف آپ ہیں ۔۔۔صرف آپ ہیں عابد
رہی بات انکی تو میں انہیں ایز اے رائٹر لائیک کرتی ہوں ۔۔۔ اور کوئی واسطہ نہیں ۔۔۔کوئی رشتہ نہیں
وہ منہ پر ہاتھ رکھکر اندر چلی گئی
میں اٹھ کھڑا ہواء
عابد مجھے جانے دو ، کیوں میری وجہہ سے اپنی ازداوجی زندگی خراب کرتے ہو مجھے جانے دو عابد مجھے جانے دو
نہیں اطہر تمہیں سننا ہو گا۔۔۔ جو میں کہوں گا۔۔۔ عابد کا لہجہ سخت ہو گیا
اچھا کہو ۔۔۔ میں نے ہی ہار مان لی
جب تم نے رافعہ کو پروپوز کیا تھا تو اس سے دو ہفتے پہلے ہی مسرت رافعہ کو تمہارے متعلق اپنے جذبات بتا چکی تھی ۔۔۔ اسلئے رافعہ نے تمہیں ریجیکٹ کیا ۔۔۔ اور پھر مسرت کے ساتھ تم رافعہ کے لئے اٹیچ رہے تو مسرت کی غلط فہمی نے تمہیں اسکی نظروں میں ایک نیا روپ دے دیا۔۔۔ اور پھر تم تینوں کے درمیان ایک مثلث بن گئی۔۔۔ رافعہ اگر تمہیں اپناتی تو مسرت کو دکھ ہوتا۔۔ اور اگر تمہیں مسرت کے جذبوں کا علم ہوتا تم اسے انکار کر دیتے ۔۔۔ اور مسرت تمہیں کچھ کہتی تو رافعہ کو دکھ ہوتا ۔۔۔ غرض تم تینوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔۔۔ مگر تمہارے درمیان ایک مثلث تھی ۔۔۔ اور پھر تم تینوں نے قربانی دی ۔۔۔ رافعہ نے تمہیں چھوڑا ۔۔۔ تم نے رافعہ کو اور مسرت نے تم کو ۔۔۔ یعنی تم نے ایک دوسرے کو ایک دوسرے کی خاطر چھوڑا۔۔۔
اور تم نے اپنا لیا۔۔۔۔ پتہ نہیں میرا لہجہ تلخ کیوں تھا
وہ پھیکی سی ہنسی سے میرے لہجے کو اگنور کر گیا
نہیں میں تو رافعہ کے متعلق جانتا بھی نہ تھا ، صرف تمہارے توسط سے وہ ذہن میں تھی ، گھر والوں نے رشتہ طے کیا ، مجھے جب نام پتہ چلا تو میں صرف اسے مشہابہت سمجھا۔۔۔ مگر جب پتہ چلا تو میں کچھ نہ کر سکا ۔۔۔ میری شادی میری والدہ کی خواہش تھی ۔۔۔ میں انکار نہ کر سکا۔۔۔ پھر بعد میں میں نے تمہیں بہت ڈھونڈا مگر۔۔۔
میں تو یہیں تھا۔۔۔۔ ایک دنیا مجھے جانتی ہے ۔۔۔ میں تمہیں نہیں ملا ۔۔۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا
ہاں ایک دنیا تمہیں جانتی ہے ۔۔۔ تب مجھے احساس ہوا کہ ایک مشہور آدمی سے ملنا کتنا مشکل کام ہے ۔۔۔ خیر اب ملے ہو تو مجھے بہت کچھ سوچنا ہے
تم کچھ نہ سوچوعابد ۔۔۔ سب بھول جاؤ ۔۔۔اسی میں تمہاری بھلائی ہے ، میری بھلائی ہے ، ہم سب کی بھلائی ہے
مگر اطہر تم نے اپنی زندگی کو دکھوں کی آماجگاہ بنا رکھا ہے ، تمہارے خیالات ایک ہی محور پر گھومتے ہیں کہ ، تمہیں ٹھکرایا گیا ہے
نہیں عابد۔۔۔ اب تم میرے خیالات کو بلند پاؤ گے، بس یہی قلق تھا ۔۔۔ کہ مجھے کسی نے نہیں چاہا۔۔۔ مگر آج جانا کہ مجھے بھی چاہا گیا تھا اور چاہا جاتا ہوں
اطہر تمہیں ایک دنیا چاہتی ہے اور تم کہتے ہو تمہیں نہیں چایا گیا
ہونہہ دنیا کی چاہت۔۔۔ یہ دنیا تو ہر اس چیز کو چاہتی ہے جو سامنے ہو ۔۔۔ذرا اوجھل ہونے پر یوں بھولتی ہے جیسے اسکا وجود ہی نہ تھا
آخر ہو نا ڈرامہ نگار ڈائلاگ ہی بولو گے ۔۔۔ میں تو چاہتا ہوں ۔۔۔ کہ اگر تم اسے اپناؤ تو میں ۔۔۔ میں رافعہ کو تمہاری خاطر چھوڑ سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔
کیا۔۔۔۔۔میں چیخ اٹھا اور اسکا گریبان پکڑلیا ۔۔۔ عابد ۔۔میرا ذہن گھومنے لگا ۔۔۔ کیا کہا تم نے ۔۔۔۔ کیوں کہا تم نے یہ ۔۔۔ اسکے الفاظ میرے لئے ایٹم بم سے کم نہ تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں عابد نہیں ۔۔۔۔ میں اپنی زندگی کا دکھ بڑھانا نہیں چاہتا ۔۔۔اور تمہیں کوئی دکھ نہیں دینا چاہتا
ارے میرے لئیے لڑکیوں کی کیا کمی ہے
نہیں ۔۔۔۔اور لڑکیوں اور رافعہ میں بہت فرق ہے دوست ۔۔۔ نہیں تو لڑکیاں تو میرے ساتھ بھی بہت ہیں ، ہر ڈھب کی ، چاہنے والیاں ، جان دینے والیاں
مگر کوئی رافعہ نہے۔۔۔۔۔اسنے جیسے زبردستی بولا
بیشک نہ ہو۔۔ مگر میرے لئے تم یہ قربانی نہ دو۔۔۔میں نے تو اسے صرف چاہا ہے۔۔ اور وہ بھی یکطرفہ طور پر۔۔۔ مگر تم نے تو اسے پایا ہے ۔۔۔ اپنایا ہے۔۔۔ یاد رکھو اس چیز کے جانے کا اتنا غم نہیں ہوتا ۔۔جو تمہاری پہنچ سے دور ہو ۔۔۔مگر جو چیز تمہارے پاس ہو اسکی جدائی مشکل سے برداشت ہوتی ہے
تم صحیح کہ رہے ہو اطہر ۔۔۔ شاید اسی لئیے رافعہ مجھے چاہنے بھی لگی ہے ۔۔۔ بہت چاہتی ہے وہ مجھے۔۔۔ اسکا لہجہ عجیب تھا مجھے جیسے ایک زخم لگا گیا ۔۔۔ میں پھیکی سی مسکراہٹ سے بولا
ہاں عابد ہر وفا شعار بی وی اپنے مجازی خدا کو یونہی چاہتی ہے ۔۔ خدا تم دونوں کو خوش رکھے۔۔۔ اور مجھے اجازت دو۔۔۔ میں اٹھ کھڑا ہواء
اس وقت کہاں جاؤ گے ، رات کے دو بج رہے ہیں ۔۔ ٹیکسی بھی نہیں ملے گی ۔۔۔
ہم آوارہ منش ہیں یار ۔۔۔ پیدل ہی نکلیں گے
نہیں اطہر رات ادھر ہی رہو
نہیں عابد اب میرا یہاں رکنا بہتر نہیں
اطہر ۔۔۔۔ اسکے لہجے میں احساس جرم تھا
عابد ۔۔۔ سمجھا کرو
میں نے اسکا کندھا تھپتپایا اور پھر باہر آ گیا۔۔۔باہر کی سنسان سڑکوں پر میں اکیلا چل رہا تھاْ۔۔۔ ایک طوفان سا تھا خیالات کا۔۔۔ عابد ۔۔۔۔ رافعہ ۔۔۔۔ مسرت ۔۔۔میرے زہن میں یہ نام گڈمڈ ہو رہے تھے ۔۔۔میں نے واقع ہی رافعہ کو دل و جان سے چاہا تھا۔۔۔اور اسکے ٹھکرائے جانے کے بعد سے زندگی کو بے کیف سمجھتا تھا ۔۔۔۔ مگر زمانے کی رنگینناں مجھے بہت کچھ بھلا دیتی تھیں ۔۔۔اور آج کا واقعہ ۔۔۔۔
میں ایک فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا ۔۔۔ایک گاڑی والے نے لفٹ کی آفر کی اور میں گھر آ گیا۔۔۔ کئی دن گذر گئے عابد نے مجھے چار پانچ بار فون کیا اور مجھ سے ملنے کی کوشش بھی کی ۔۔۔ مگر میں جان بوجھ کر اجتناب کیا ۔۔۔۔

ایک دن میں سٹوڈیو میں اپنے ڈرامے کی ریکارڈنگ میں مصروف تھا ، کہ پتہ چلا کہ کوئی خاتون مجھ سے ملنا چاہتی ہیں ، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ رافعہ ایسے مجھ سے ملے گی ، میں نے اسے اندر بلا لیا ، اور اسے کہا کہ میں اپنی ریکارڈنگ پوری کرتا ہوں آپ شوٹنگ دیکھیں۔۔۔ اور میں سیٹ پر اپنے ڈائلاگ بولنے لگا
روبی ۔۔۔تم جانتی ہو جب کسی انسان کو ٹھکرا دیا جاتا ہے تو وہ جیتے جی مر جاتا ہے ، غھکرائے ہوئے انسان کی پہچان مٹ جاتی ہے ، وہ خود کو تنہا کر دیتا ہے ، گمنام کر دیتا ہے ۔۔ مگر ایسے انسان مرنے کے بعد ایک نیا جنم لیتے ہیں ۔۔۔جس میں وہ صدا کے لئیے زندہ رہتے ہیں ۔۔۔۔ یہ دنیا انہیں چاہتی ہے۔۔۔ انہیں پوجتی ہے ۔۔۔ مگر یہ نہیں سوچتی ۔۔۔ کہ اگر اس شخص کو زندگی میں اتنا چاہا جاتا تو شاید وہ زیادہ عظیم ہوتا ۔۔۔ اور زیادہ عظیم ہوتا۔۔۔۔

کٹ ۔۔۔ پروڈیوسر کی آواز ابھری ۔۔۔ گڈ شو اطہر۔۔۔ اوکے پیک اپ۔۔۔۔میں رافعہ کی طرف بڑھتا چلا گیا
ارے آپکی آنکھوں میں آنسو؟
اطہر آپ ایسے کردار کیوں کرتے ہیں
کیوں کہ میں ہوں ہی ایسا
نہیں آپ ایسے نہیں ہیں ۔۔۔۔ میں آپ سے کہنے آئی تھی ۔۔۔
جی کہیے۔۔۔۔
اطہر آپکی آمد نے ہماری ۔۔۔ میرا مطلب ہے ۔۔۔ میری اور عابد کی زندگی میں ایک دھماکہ کر دیا ہے ۔۔۔آپ کی آمد سے ہمارے درمیان پھر سے ایک مثلث بن گئی ہے ۔۔۔ میں عابد اور آپ ۔۔۔ مثلث بن گئے ہیں
مثلث ۔۔۔ میں چونک گیا
نہیں رافعہ میں یہ مثلث نہیں بننے دوں گا۔۔۔ میں دور چلا جاؤں گا۔۔۔ میں سمجھ گیا تھا کہ میری وجہہ سے انکے درمیان کیا ہو رہا تھا۔۔۔۔
اطہر میرا مطلب یہ نہیں ۔۔ آپ عابد کو سمجھائیں جو ہونا تھا ہو چکا ۔۔۔اور اب آپ ہماری زندگی میں زہر نہ گھولیں ۔۔ پلیز
رافعہ ۔۔۔ آپ مطمئن رہیں ۔۔۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا
رافعہ چلی گئی ۔۔۔ میں اسے جاتے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا، زندگی ایسے بھی دور ہوتی ہے ۔۔۔۔
دوسرے دن عابد کو فون کیا ۔۔۔
عابد کچھ مت کہنا۔۔۔صرف میری بات سننا۔۔۔ میں جا رہا بہت دور ۔۔۔زندگی کے کسی موڑ پر تم سے ملوں تو اجنبی سمجھ کر فراموش کر دینا۔۔۔ میں تمہارے اور رافعہ کے اور اپنے درمیان وہ منحوس مثلث نہیں بنانا چاہتا جو کبھی میرے ، مسرت اور رافعہ کے درمیان میں تھی ۔۔۔ جسکی وجہہ سے آج ہم تینوں کی زندگی جہنم بنتی جا رہی ہے
اسئلیے یہ مثلث اب کبھی بھی نہیں بنے گی ۔۔۔
میں نے رسیور رکھ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گو عابد کو کہ تو دیا تھا مگر ۔۔۔ اسے نبھانا ۔۔۔۔ اور جیسے وقت کی رفتارتھم گئی تھی ، شاید میں اسے بھلا نہ پایا تھا، اسنے کہا تھا کہ میں نے اسکی زندگی میں زہر بھر دیا ہے ، مگر اسکی ایک جھلک نے مجھ سے میرا آپ چھین لیا تھا۔۔۔میں نے لکھنا چھوڑ دیا تھا۔۔ تمام پرفارمنگ آرٹس کو بھی ختم کر دیا تھا۔۔۔ رات رات بھر صفحے کالے کرتا ۔۔۔ اور میری ردی کی ٹوکری بھرتی رہتی ۔۔۔
گھر میں ماما کے سوا کون تھا۔۔۔ اور ماں تو سب جان لیتی ہے ۔۔۔ ایک دن انکے بھی صبر کا پیمانہ چھلک گیا ۔۔۔
زی یہ کیا ہے ۔۔۔۔۔ وہ مجھے پیار سے زی کہتی تھیں
ماما ۔۔ ماما ۔۔۔میں نے کچھ کھو دیا ہے ۔۔۔ ماما ۔۔۔ میں کسی کے لئیے دکھ کا باعث بنا ہوں۔۔۔ میں نے انکے گھٹنوں میں سر رکھ دیا ۔۔۔
زی ۔۔۔ تم نے کسی کو دکھ دیا۔۔۔ ناممکن ۔۔۔ کتنا مان تھا انہیں مجھ پر۔۔۔ میرا بیٹا سب کچھ کر سکتا ہے ۔۔۔ مگر کسی کو دکھ نہیں دے سکتا۔۔۔ ناممکن ۔۔۔ انہوں نے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا
اچھا ۔۔ بتاؤ کیا ہواء ہے ؟ مجھے نہیں بتاؤ گے ۔۔۔ اپنی ماما کو ۔۔ اپنی فرینڈ کو۔۔۔۔
ماما۔۔۔ ایک دوست اپنی دوستی کو امر کر گیا ۔۔۔ اور دوسرا اسکے لئیے۔۔۔ میری آواز بھرا گئی ۔۔۔۔ ماما میرا ماضی مجھے ایک تحفہ دے گیا ہے ۔۔۔اور میرا حال ۔۔۔ میرا مستقبل۔۔۔ کچھ نہیں کچھ نہیں ۔۔۔۔ میں بے ربط بول رہا تھا۔۔۔
زی ۔۔۔ وہ کسی شاعر نے کہا ہے نا
کل کاماضی ، آج کا حال ، کل کا مستقبل ہو گیا
جسنے پیچھے مڑ کہ دیکھا، وہ پتھر کا ہو گیا
زی زندگی جمود کا نام نہیں ۔۔۔ حرکت کا نام ہے ۔۔۔ ماضی کبھی حال نہیں ہو سکتا ۔۔۔ اور حال کبھی مستقبل نہیں ہو سکتا۔۔ سو جیو تو آج میں ۔۔۔ سیکھو تو ماضی سے ۔۔۔ سوچو تو مستقبل کا ۔۔۔
مگر ماما ۔۔۔ یاد ماضی ۔۔۔ میں نے کچھ کہنا چاہا ۔۔۔
نہیں زی کچھ نہیں ۔۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔ ٹی وی پر حامد علی کی آواز آ رہی تھی
گذر گیا جو زمانہ اسے بھلا بھی دو
جو نقش بن نہیں سکتا اسے مٹا بھی دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پتہ نہیں یہ محبت بھی کیا چیز ہے ۔۔۔ اسکا کوئی قانون نہیں کوئی قاعدہ نہیں ۔۔۔ اور جب یہ ہو جائے تو بس ہو جاتی ہے۔۔۔ اور یہ دوستی ۔۔۔ یہ اس سے بھی عجیب ہوتی ہے ۔۔۔۔ یار کی خاطر دنیا کو لٹا دیا جاتا ہے ۔۔۔ کسی مذہب کسی قانون ۔۔۔ کسی معاشرے کی نہیں سنتے یہ لوگ۔۔۔ اور قربان ہو جاتے ہیں۔۔۔
عاشق اور دوست سدا روتے ہیں ۔۔۔ عاشق محبوب سے وصل کی خاطر ، ہر نظام سے ٹکرا کر خود کو پاش پاش کر لیتا ہے ۔۔۔ اور دوست ۔۔۔دوست کی خاطر اپنا جیون اندھیر کر لیتا ہے ۔۔۔
ہمارے لئے دوستی اور محبت دو الگ الگ رشتے ہیں ۔۔۔ مگر دونوں کا مقصد ایک ہی ہے ۔۔۔قربانی ۔۔۔ ہم ایک دوسرے کی خاطر جیتے ہیں مرتے ہیں ۔۔۔ مگر اپنی بے بسی اور بے ثباتی کی وجہہ نہیں مانتے۔۔۔
اور جب بھی کوئی ۔۔۔ دل کو بھا جائے یا دل کسی کی طرف کھنچا چلا جائے تو ۔۔۔ محبوب کا اکثر جواب نفی میں ہوتا ہے ۔۔۔ گو وہ سب جانتا ہے ۔۔۔ مگر محبوب ۔۔اگر عشق کو تسلیم کر لے ۔۔۔ تو شاید یہ دنیا ۔۔۔۔ برائیوں سے پاک ہو جائے ۔۔۔ مگر ایسا ہوتا نہیں۔۔۔۔ یہاں دوستی نبھانے کے لئیے قربانی چاہیے ۔۔۔ یہاں عشق کے لئیے اپنی ذات کو بھولنا پڑتا ہے ۔۔ ۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔۔۔۔

میں نے رافعہ کے بعد کچھ عرصہ ۔۔۔آوارگی میں گذارا ۔۔۔ مگر جب کہیں سکوں نہ ملا تو ۔۔۔صرف ماما کے کہنے پر جاب کی تلاش شروع کر دی ۔۔۔ اور پھر شاید وقت کو مجھ پر رحم آہی گیا۔۔۔ مجھے ایک ماہنامے میں ایڈیٹر کی جاب مل گئی ۔۔۔اور میں زمانے کی رنگین و سنگین داستانیں پڑھنے لگا۔۔۔ مگر کیسے۔۔۔۔
ہر لفظ کتابوں میں تیرا عکس لئیے ہے
اک پھول سا چہرہ ہمیں پڑھنے نہیں دیتا

ماما نے میری کیفیت سمجھ لی تھی اور ۔۔۔ ایک پروڈیوسر سے کہ کر مجھے لکھنے پر مجبور کیا ۔۔۔ تو دل کا غبار اپنی کہانی "مثلث” کی صورت میں نکلا۔۔۔۔ اور پھرے یہ کہانی اسکرین کے بنیادی مراحل سے گذرنے لگی ۔۔۔
ریکارڈنگ کے دوران میں کئی دفعہ ۔۔۔ ذہن ی کشمکش کا شکار ہوا ۔۔۔۔ خصوصاً وہ سین جب میری رافعہ سے پہلی ملاقات فلمائی گئی ۔۔۔ میرا کردار کرنے والے فنکار نے (جو مجھے اپنا آئڈئیل کہتا تھا) اپنی جاندار اداکاری اور مکالموں کی ادائیگی سے مجھے میرے حواس پر چھا گیا ۔۔۔۔
یہ سب دیکھ کر ماما نے میری شادی کے لئیے تگ و دو شروع کر دی
میں شادی نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔
کیوں ۔۔۔ ماما کے لہجے میں جانے کیا تھا میں لرز کہ رہ گیا
بس ماما ۔۔۔ ابھی نہیں ۔۔۔
ابھی نہیں تو کیا ۔۔۔ میرے مرنے کے بعد۔۔۔
ماما۔۔۔ میں نے بے بسی سے انکی گود میں سر رکھ دیا۔۔۔
زی ۔۔۔ اب مجھ میں دکھ اٹھانے کی ہمت نہیں۔۔۔ تم دس ماہ کے تھے جب تمہارے پاپا نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا ۔۔۔ تو تمہارے دادا دادی نے ہمیں گھر سے بے گھر کر دیا ۔۔۔ مگر میری صحافت کی ڈگری کام آئی ۔۔۔۔ اور میں نے ایک چھوٹے اخبار میں نوکری کر لی ۔۔۔ اور آج تمہیں اس مقام پر پہنچایا کہ مجھے فخر ہے اپنے بیٹے پر ۔۔۔۔ میں نے تمہیں کوئی بھی گرم سرد نہیں ہونے دیا ۔۔۔ چاہے مجھے آگ اور برف سے لڑنا پڑا ۔۔۔۔ ماما باربار کی دہرائی ہوئی کہانی سنا کر رو دیں

مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی اجڑے باغ میں کھڑا ہوں ۔۔ وہ کہ رہیں تھیں
زی ۔۔۔ میں نے تم سے کبھی کچھ نہیں مانگا ۔۔۔ میں تم سے صرف ایک خوشی مانگتی ہوں ۔۔۔ شادی کر لو۔۔۔ زی میرے لئے ۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔۔۔ اور میں ماں کی مامتا سے ہار گیا ۔۔۔
ٹھیک ہے ماما ۔۔۔ آپ جو چاہیں کریں ۔۔۔ میں نے انکے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ۔۔۔ ماما نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا

اور پھر شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں ۔۔۔ مگر بدقسمتی نے شاید میرا گھر دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔ ایک دن شاپنگ سے واپسی پر ۔۔۔ جب ماما کار ڈرئیو کر رہیں تھیں میں ساتھ والی سیٹ پر تھا ۔۔۔ کار کی ڈکی اور پچھلی سیٹ رنگ برنگے ڈبوں اور شاپرز سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔ کہ سامنے سے آنے والی کوچ ۔۔۔ سڑک کے درمیان بنی پتھر کی پٹی پھلانگتی ہوئی سڑک پر سیکڑوں گاڑیوں کو چھوڑ کر صرف ہماری گاڑی پر چڑھ دوڑی ۔۔۔ اور پھرنہ جانے کیا ہواء ۔۔۔۔ لوگوں کی چیخیں تھیں ۔۔۔ اور رنگ برنگے شاپرز ایک ہی رنگ میں رنگتے چلے گئے ۔۔۔میری آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا ۔۔۔ تو میں نے ان ڈوبتے لمحوں میں سوچا ۔۔۔چلو اس دکھ بھری زندگی سے نجات ملی ۔۔۔۔ مگر یہ طوفان تو کچھ اور ہی چاہتا تھا ۔۔۔میں زندہ رہ گیا ۔۔۔ میری ماں ۔۔۔ میری دوست ۔۔۔ میرے اتنے بڑے بے فضول بدن کو سینچنے والی ۔۔۔ میرا سب کچھ ۔۔۔ مجھ سے بچھڑ گئی ۔۔۔۔ میں پاگل ہو گیا ۔۔۔ گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ۔۔۔آفس میں ذہن الجھا رہتا ۔۔۔ سب لوگ عجیب نظر آتے ۔۔۔ جب کوئی ہنستا تو اسکی آواز صور کی آواز لگتی ۔۔۔میری یہ کیفیت کئی ہفتے رہی ۔۔۔ میں نے چھٹیاں لے لیں ۔۔۔ اور دنیا سے کٹ گیا ۔۔۔ میں تھا ۔۔ تنہائی ۔۔۔ سگریٹ پینا چاہتا تو ماما کا چہرہ سامنے آجاتا جنہوں نے مجھے ۔۔۔ اس سگریٹ سے اتنی نفرت دلائی کہ کبھی خواب میں بھی اسکو ہاتھ نہ لگاتا ۔ ۔
وقت بھی عجیب چیز ہے کبھی تو ایسا رکتا ہے جیسے ساری دنیا ساکت ہو ۔۔۔ اور کبھی ۔۔۔ آندھی طوفان بن جاتا ہے ۔۔۔ وقت کا مرہم لگا تو میں آفس آگیا ۔۔۔ مگر میری خمار آلود آنکھیں مجھے الگ تھلگ ہی رکھتیں تھیں ۔۔۔۔میں اس کیفیت سے کبھی باہر نہ آتا مگر ایک دن ۔۔۔ فون کی گھنٹی بجی ۔۔۔ رسیور اٹھایا ۔۔۔۔
اطہر ہیں ؟
جی بول رہا ہوں۔۔
اطہر ۔۔۔ آپ کیوں ہمارے لئیے عذاب بن رہے ہیں؟
میں رافعہ کی آواز سن کر جیسے ہوش میں آگیا ۔۔۔
راف۔۔۔ رافعہ ۔۔۔ مم ۔۔۔مم ۔۔ میں ۔۔ عذاب ۔۔۔
ہاں میں رافعہ ہوں ۔۔۔۔ آپ جب ہر طرف سے مایوس ہو گئے تو اب یہ ڈرامے بنانے لگے ۔۔۔۔۔۔ہیں ۔۔۔ کیا کر لیں گے آپ ۔۔۔ میں آپکی تھی ۔۔۔اور نہ ہوں ۔۔۔ اور نہ کبھی ہو سکتی ہوں ۔۔۔ چاہے بیسوں ڈراموں میں آپ اپنا رونا روئیں ۔۔۔۔انڈر سٹینڈ یو ۔۔۔۔۔
رافعہ سنیں تو ۔۔۔۔۔
اب سننے کو رہ کیا گیا ہے ۔۔۔ ہم نے سوچا تھا کہ شاید آپ اپنی دوستی کی مثال کو زندہ رکھیں گے ۔۔۔ اور دنیا کو دکھوں سے لڑنا سکھائیں گے ۔۔۔ مگر ۔۔۔
میں کیا سکھاؤں گا ۔۔۔ میں خود ہار گیا ہوں ۔۔۔ میں تو ۔۔ میں تو ۔۔ مر گیا ہوں ۔۔۔
نہیں مرتے آپ جیسے لوگ۔۔۔ ہم جیسے کتنوں کو مار کہ مرتے ہیں ۔۔۔۔
تو آپ چاہتیں ہیں کہ میں مر جاؤں ۔۔۔۔؟؟
میرے چاہنے یا نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔ انسان کی ہر خواہش تو پوری نہیں ہوتی نا ۔۔۔۔ اس کے لہجے میں بے بسی تھی ۔۔۔ اور زہر بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔ میں ہنس دیا
اوکے ۔۔۔ رافعہ آپ کو یہ خوشخبری بھی جلد ملے گی ۔۔
اب کیا خوشخبری ملے گی ۔۔۔ اب تو آپ مر جائیں ۔۔۔ یا مجھے مار دیں ۔۔۔۔مجھے مار دیں ۔۔۔۔
رافعہ ۔۔۔ رافعہ ۔۔۔ مگر فون بند ہو چکا تھا ۔۔۔۔
میں نے ٹی وی کا نمبر ملایا ۔۔۔ پروڈیوسر صاحب ایک دم خوشی سے بولے ۔۔۔۔اطہر تھنکس کے تم نے بھی خبر لی ۔۔۔ارے تمہارا ڈرامہ ۔۔۔۔
سر پلیز اسے آن ائیر نہ جانے دیں ۔۔۔۔
کیا کہ رہے ہو اطہر ۔۔۔ وہ تو ۔۔۔
سر یہ میری زندگی اور موت کا سوال ہے ۔۔۔
اطہر سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔۔ ہم نے سپانسر بک کر لئیے ہیں ۔۔۔ جو تمہارے نام کی وجہہ سے ہیں اور ۔۔۔ پھر اسکا ٹریلر دیکھا چکے ہیں ۔۔۔ لوگ تو منتظر ہیں اس ٹراینگل لو اسٹوری کے ۔۔۔۔اور وہ نئی اداکارہ ۔۔۔
سر پلیز اسے روک دیں ۔۔۔۔
اب ایسا ممکن نہیں ۔۔۔ گھر پر جا کہ ٹریلر دیکھنا ۔۔۔ میری ایک ریکارڈنگ ہے ۔۔ میں خود تمہارے گھر آؤں جب ڈرامہ آن ائیر جائے گا ۔۔۔
سر ۔۔۔ سر مگر فون ایک بار پھر بند ہو چکا تھا ۔۔۔۔

گھر آکر میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ٹی وی آن کر دیا ۔۔۔ اشتہار چل رہے تھے ۔۔۔ کہ اچانک میں چونک پڑا ۔۔۔

کل شب کو دیکھیے مشہور رائیٹر اطہر ہاشمی کا لکھا ہوا مثلث
مثلث ۔۔ جذبوں کی کہانی
مثلث ۔۔ دوستی کی کہانی
مثلث ۔۔۔ قربانی کی کہانی
اور پھر کلائمکس سین دیکھایا گیا ۔۔۔۔جسنے میرے دل میں ہلچل مچا دی ۔۔۔یہ سین تھا ۔۔۔ عابد کی بی وی کے روپ میں رافعہ سے میری ملاقات کا ۔۔۔۔میرے ذہن میں چنگاریاں اڑنے لگیں ۔۔۔میں نے آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ مگر آواز سنائی دی ۔۔۔۔ آپ کی آمد نے ہماری زندگی میں زہر گھول دیا ہے ۔۔۔۔میں نے ٹی وی بند کر دیا ۔۔۔ مگر لفظوں کی بازگشت نے میرا پیچھا نہ چھوڑا ۔۔۔۔میں نے نیند کی گولیوں کی شیشی انڈیل لی ۔۔۔۔ مگر صر ف دو گولیاں ۔۔۔ مگر شاید اتنی مقدار ہی مجھے ایک رات تک کے لئے کافی تھی ۔۔۔ آج ابھی میں گھر میں داخل ہواء ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی ۔۔۔عابد کا فون تھا ۔۔۔ اس نے اسی انداز سے بات کی جیسے کبھی میں نے اس سے کی تھی ۔۔۔۔
اطہر کچھ مت کہنا ۔۔۔ تم ہم سے دور نہیں جا سکتے ۔۔۔ اسلئیے ہم تم تو کیا ۔۔۔ اس شہر ۔۔۔ اس ملک کو ہی چھوڑ کر جارہے ہیں ۔۔۔ کوشش کرنا کہ اب کبھی کوئی رابطہ نہ ہو ۔۔۔ میں ۔۔۔میں رافعہ کے لئیے ساری دنیا چھوڑ سکتا ہوں ۔۔۔ کہ میں اسکا ہوں ۔۔۔وہ میری ہے ۔۔۔ گو تم جیسے دوست کو بھولنا مشکل ہو گا ۔۔۔۔مگر ۔۔۔اطہر ۔۔۔لوگ مر بھی تو جاتے ہیں نا۔۔۔۔ہم سمجھیں گے کہ تم مر گئے ہو ۔۔۔
میں کیا کہتا ۔۔۔ وہ رو رہا تھا ۔۔۔ کچھ کہ رہا تھا ۔۔۔ اپنی دوستی کے بارے میں ۔۔۔ اپنی محبت کے بارے میں ۔۔۔ اپنی بے بسی کے بارے میں ۔۔۔ شاید کچھ اور بھی ۔۔۔مگر میں رسیور رکھ چکا تھا ۔۔۔
اب میرے پاس کچھ بھی نہیں ۔۔۔ نہ رافعہ جیسی محبوب ۔۔۔ نہ عابد جیسا دوست ۔۔۔ نہ ماما جیسی ماں ۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔ تو پھر میں کیوں ہوں ۔۔۔ میں نے نیند کی گولیوں کی شیشی کھول کر انڈیلنا چاہی مگر ۔۔۔ یہ کیا ۔۔۔ خالی ۔۔۔ فون پھر چیخا ۔۔۔ پروڈیوسر صاحب تھے ۔۔ کہ رہے تھے ۔۔۔ کہ کچھ دیر بعد میرا ڈرامہ آن ائیر ہو رہا ہے۔ ۔ ۔ جسکے ہزاروں لوگ منتظر ہیں۔۔۔ میں کیا کروں ۔۔۔ ڈرامہ ۔۔۔رافعہ ۔۔۔عابد ۔۔۔محبت ۔۔۔ ماما ۔۔۔کوئی بھی تو نہیں میرے ساتھ ۔۔۔ میرے سر میں آگ سی لگ گئی ہے ۔۔۔ دھڑکن بڑھ گئی ہے ۔۔۔۔ سر پٹھا جا رہا ہے ۔۔۔ رافعہ ۔۔۔۔ یہ تم نے اچھا نہیں کیا ۔۔۔
پتہ نہیں کیوں ٹی وی آن کر دیا ہے میں نے ۔۔۔ مگر اسمیں آواز کیوں نہیں ۔۔۔۔ تصویر کی جگہ روشنی ۔۔۔۔ صرف روشنی ۔۔۔۔ میں دیکھ نہیں پا رہا ہوں کیا۔۔۔ کیا میں مر رہا ہوں ؟ ۔۔۔نہیں نہیں میں مرنا نہیں چاہتا ۔۔۔ ابھی تو مجھے اپنا ڈرامہ دیکھنا ہے ۔۔۔۔مے ۔۔۔مم۔۔۔۔مے مے ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹی وی پر آخری سین چل رہا تھا ۔۔۔ جب دروازہ کھلا ۔۔۔ اور پروڈیوسر صاحب اندر داخل ہوئے ۔۔۔
اطہر ۔۔۔اطہر ۔۔۔تمہارے ڈرامے کی اتنی بڑی کامیابی ۔۔۔ ابھی ڈرامے کے دوران ہی لوگ پوچھ رہے ہیں کیا یہ سب سچ ہے ۔۔ ۔۔۔اطہر ۔۔۔اطہر ۔۔۔ مگر اطہر کا سر ایک طرف ڈھلک گیا ۔۔۔
اوہ مائی گاڈ ۔۔۔۔
انہوں نے جلدی سے ایمبولینس کو فون کیا ۔۔۔

اطہر اپنی آخری کامیابی تو دیکھتے جاتے ۔۔۔۔
اطہر کے کردار کی آواز گونجی ۔۔۔۔
کچھ مت کہنا ۔۔۔۔صرف میری بات سنو ۔۔۔ میں جا رہا ہوں ۔۔۔ بہت دور زندگی کے کسی موڑ پر اگر تم سے ملوں بھی تو اجنبی سمجھ کر فراموش کر دینا ۔۔۔ میں تمہارے اور تمہاری بی وی کے درمیان وہ منحوس مثلث نہیں بننا چاہتا ۔۔۔ جو کبھی اسکے اور میرے درمیان بنی تھی ۔۔۔

آج اس بات کو کئی برس بیت چکے ہیں میں اب بھی اسی شہر میں ہوں اور وہ بھی اسی علاقے میں ۔۔۔ مگر جب فاصلے اپنے پیدا کئیے ہوئے ہوں تو نزدیکیاں بھی دوریاں بن جاتیں ہیں ۔۔۔۔مگر اب میری تحریروں میں ٹھکرائے جانے کا عنصر نہیں ہوتا ۔۔۔ بلکہ ہر تحریر ایک مثلث بناتی ہے ۔۔۔ ملن ۔۔ جدائی اور تنہائی کے درمیان ۔۔۔ اور اسی طرح کی کتنی ہی مثلثیں میری کہانیوں کا عنوان ہیں ۔۔۔ وہ اب بھی مجھے جانتے ہوں گے ۔۔۔ مگر کسی اور نام سے ۔۔۔ کہ میں نے تحریر کا انداز ہی نہیں بدلا بلکہ ۔۔۔ نام بھی بدل لیا ہے ۔۔۔ جیسے کہ کوئی تھا ہی نہیں ۔۔۔۔

اور پھر آخری ٹایٹل چلنے شروع ہوئے ۔۔۔ اطہر کی اپنی آواز گونجی ۔۔۔

یہ میری کہانی ہے ۔۔۔ میرے دوستوں کی کہانی ہے ۔۔۔ میرے چاہنے والوں کی کہانی ہے ۔۔۔ میں اس کہانی میں آپ کو بہت کچھ دے رہا ہوں ۔۔۔ مگر میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ۔۔۔ اور اب میں خالی ہاتھ ہوں ۔۔۔۔ اور شاید یہ میری آخری کہانی بھی ہو !!!!
اینبولینس آ گئی ہے جناب ۔۔۔
ہونہہ ۔۔۔پروڈیوسر صاحب چونک پڑے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹی وی پر خبریں چل رہیں تھیں ۔۔۔
مشہور ادیب اور اداکار جناب اطہر ہاشمی کل دماغ کی شریان پھٹنے سے انتقال کر گئے ۔۔۔ انکی عمر پینتیس برس تھی ۔۔۔ وہ اپنی جذباتی اور فطری اداکاری اور کردار نگاری کے حوالے سے جانے جاتے تھے ۔۔۔ ادبی حلقوں میں انکا خلا ایک مدت تاک پر نہیں ہو سکتا ۔۔۔
ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ۔۔۔
ہیلو ۔۔۔ جی موجود ہیں
مسرت تمہارا فون ہے ۔۔۔۔
مسرت نے ریسیور پکڑا ۔۔۔ ہیلو ۔۔۔۔
جی ۔۔۔ اوہ ۔۔۔ جی وہ میری دوست ہے
کیا۔۔۔۔ وہ چیخ اٹھی ۔۔۔نہیں ۔۔۔کب ۔۔۔
اور کچھ سننے کے بعد مسرت نے ریسیور رکھ دیا
کیا ہوا ۔۔۔مسرت کے شوہر نے پوچھا
وہ میری سہیلی تھی نا رافعہ ۔۔۔
ہاں ہاں وہ عابد کی بی وی ۔۔۔ ماشااللہ بہت اچھی جوڑی ہے ۔۔
وہ دونوں ائیر پورٹ جاتے ہوئے ۔۔۔ مسرت پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی
اوہ ۔۔ نو ۔۔۔ ویری سیڈ ۔۔۔۔
میں تمہارے لئیے پانی لے کر آتا ہوں تم ادھر بیٹھو۔۔۔
شوہر ابھی اندر گیا تھا ۔۔۔ کہ ڈور بیل بجی ۔۔۔۔ مسرت نے آنکھیں پونچھتے ہوئے دروازہ کھولا ۔۔۔اوہ فرح ۔۔۔ دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئیں ۔۔۔ رافعہ نہیں رہی ۔۔۔ ہاں میں بھی اسی کا سن کر آئی ہوں ۔۔۔۔
کون آیا ہے مسرت ۔۔۔۔مسرت کا شوہر پانی کا گلاس لئیے اندر داخل ہوا۔۔۔۔
میری دوست ہے ۔۔۔فرح ۔۔۔رافعہ کا سنکر آئی ہے ۔۔۔ابھی ہم ۔۔۔ اسکی طرف جائیں گے ۔۔۔
اور فرح کی نظر جیسے ہی مسرت کے شوہر پر پڑی ۔۔۔ اسے شاک سا لگا ۔۔۔ عارف ۔۔۔۔آپ ۔۔۔۔
مسرت نے آگے بڑھ کر فرح کو سنبھالا ۔۔۔ مسرت یہ ۔۔یہ وہ ہی عارف ہیں ۔۔۔جس سے ۔۔۔۔۔۔
اور مسرت آگے کچھ نہ سن سکی ۔۔۔۔ اسکی آنکھوں کے سامنے مثلثیں ناچنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔ اختتام ۔۔۔۔۔۔۔۔

اپوازیشن نامہ

ہم کریں گے کمال، ذرا حکومت جانے دو
اپنے پھر ماہ و سال، ذرا حکومت جانے دو

دیکھو کیسے گرتے ہیں ، بُت بڑے بڑے
دیکھنا ہمارا اب کمال ، ذرا حکومت جانے دو

انصاف عدالت کرے گی ، عوام ورنہ لڑے گی
کس کا مُنہ ہو گا لال ، ذرا حکومت جانے دو

تیر اور بلے سے کریں گے شیر کا ہم شکار
ہو گی پھر ہر طرف دھمال، ذرا حکومت جانے دو

سوئی قوم کو ہم دیکھاتے ہیں خواب نئے نئے
جاگنے کا چھوڑو خیال ، ذرا حکومت جانے دو

عدالت اپنی ، طاقت اپنی ، فوج و عوام بھی اپنی
امریکہ وی ہو گا نال، ذرا حکومت جانے دو

سب سیاہ ست والے ہیں ، ایک جیسے ہی اظہر
کم نہیں ہو گا استحصال ، بے شک حکومت جانے دو

واپسی : ایک سائنس فکشن

واپسی (ایک سائنس فکشن)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد ائیر پر ہر وقت ہائی الرٹ رہتا ہے ، مگر آج زیادہ تھا کہ وزیراعظم اور صدر صاحب چینی صدر کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھے چینی صدر کا طیارہ لینڈ ہونے میں دیر تھی ، وی وی آئ پی روم میں اہم شخصیات موجود تھیں ۔ ۔ اس لیے سیکیورٹی والے ادھر اُدھر بھاگتے پھر رہے تھے

ائیر ٹریفک کنٹرول میں بھی بہت گہما گہمی تھی ، کچھ فلائیٹس کا رُخ موڑا جا رہا تھا ، تا کہ چینی صدر کے طیارے کو ایک کھلا راستہ فراہم کیا جائے ، اور کسی بھی ڈسٹربنس سے بچا جا سکے ، سلیم ریڈار کی اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھا تھا ۔ ۔ ۔ اچانک اسکرین پر ایک جھماکہ سا ہوا اور ایک اجنبی جہاز نظر آنے لگا ۔۔ ۔ کمپیوٹرائز ریڈار نے اسے فوراً شناخت کر لیا ۔ ۔۔ ڈاکوڈا ۔ ۔ ۔ سلیم کے منہ سے نکلا اور اسنے اپنے افیسر کو آواز لگائی سر جمال سر جمال یہ دیکھیے ۔ ۔ ۔ اور جب تک جمال سلیم تک پہنچے اسپیکر سے کھڑ کھڑ کی آواز آنے لگی ، لینڈینگ پرمیشن ، یہ کون سا ائیرپورٹ ہے ۔ ۔ اجنبی فلائیٹ یہ بے نظیر انٹرنیشنل ہے ۔۔ اسلام آباد ۔ ۔ اسلام آباد ۔ ۔ یہ کون سا شہر ہے ہندوستان کا شہر نہیں ۔ ۔۔ جمال نے فوراً ایمرجنسی کا بٹن دبا دیا ۔ ۔۔ اور چیخا ۔ ۔ ۔ چینی پریزیڈنٹ کا روٹ چیج کرو ۔ ۔شاید اسے خطرے کا احساس ہو گیا تھا
دوسری طرف اجنبی جہاز اب وئژیل رینج میں تھا ، سلیم نے اسے دیکھا یہ تو واقعی ہی ڈاکوڈا جہاز تھا ، جسے اب دُنیا میں کہیں استعمال نہیں کیا جاتا تھا ، اسنے پاس پڑی دوربین اٹھائی ۔ ۔ ۔ جہاز نے زمین کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا ۔ ۔۔ اور فوری طور پر اسے اب جنگی جہازوں نے گھیر لیا تھا کیونکہ ائیرپورٹ کو ہر طرح کی پروازوں کے لیے بند کیا جا چکا تھا ۔ ۔ ۔ ہم لینڈ کر رہے ہیں ۔ ۔۔ اسی لیے لمحے ۔ ۔ ۔ جنگی طیارے کے سکوارڈن لیڈر کی آواز گونجی ۔ ۔ سر ہم یہ جہاز گرا سکتے ہیں مگر آبادی پر گرے گا ۔ ۔ پرمیشن ڈینائڈ ۔ ۔ یہ آواز فوجی کنٹرول روم کی تھی ۔ ۔ اور اسی کے ساتھ سلیم نے دیکھا کہ جہاز کے ٹائیر رن وے پر تھے اور جہاز رننگ کر رہا تھا ۔ ۔۔ اپنی پہچان کراؤ ڈکوڈا ۔ ۔ ۔ ہم بمبئی سے آ رہے ہیں ، جہاز میں گورنر جنرل اور انکی بہن موجود ہیں ۔ ۔۔ کون گورنر جنرل ۔ ۔۔ گورنر جنرل آف پاکستان ۔ ۔۔ مسٹر جناح ۔ ۔ ۔ دوسری طرف سے حیرت زدہ آواز سنائی دی ۔ ۔ ۔ یہ کون سے جہاز ہیں ۔ ۔ پائلٹ ۔ ۔ کی حیرت زدہ آواز گونجی ۔ ۔۔ بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ۔ ۔۔ یہ کون سا ائیرپورٹ ہے ۔ ۔۔ سلیم جس کا زبان ساتھ چھوڑ چکی تھی ۔ ۔ گورنر جنرل مسٹر جناح ۔ ۔۔ جمال صاحب کی آنکھیں ڈکوڈا کو دیکھ رہی تھیں ۔ ۔ ۔ بالکل وہی ۔ ۔ انکے منہ سے نکلا ۔ ۔۔ جہاز کو اب سیکیورٹی کی گاڑیوں کے گھیر لیا تھا ، یہ سب کچھ دس منٹ کے اندر ہوا تھا ۔ ۔ ۔
ایک دم سے کنٹرول روم کا دروازہ کھلا اور برگیڈئیر صالح کچھ فوجی کمانڈو کے ساتھ تیزی سے اندر آئے ، مسٹر جمال کیا ہے یہ سب ۔ ۔ سر سر ۔ ۔ وہ جناح ۔ ۔۔ سر یہ قائد اعظم کو لانے والا ہی جہاز ہے ۔ ۔ وٹس ربش ۔ ۔ جمال تم ہوش میں ہو ۔ ۔ ۔ سر ۔ ۔ سر آپ خود دیکھ لیں ۔ ۔ دیکھ رہا ہوں ۔ ۔ یہ کوئی چال ہے دشمن کی ۔ ۔ کیا ١٩٤٧ کاجہاز ستر سال بعد اتر رہا ہے ۔ یہ کوئی جادو نگری ہے کیا ۔ ۔۔کمیونیکیٹر کون ہے ۔ ۔ سر ۔۔ میں ہوں سلیم ۔ ۔ پائلیٹ سے بات کرواوء ۔ ۔۔ سر ادھر سر ۔ ۔ ۔ جمال چینی صدر کے طیارے کو کہاں موڑا گیا ہے ۔ ۔ سر ۔۔ ۔ چکلالہ ائیربیس پر ۔ ۔ ۔اوکے ۔ ۔ گُڈ ۔ ۔ یہ خبر پی ایم تک پہنچانے ہو گی کہ وہ چینی صدر کے استقبال کے لیے چکلالہ ائیر بیس پہنچ جائیں ۔ ۔ ۔ جج جج جی سر ۔ ۔۔ کنڑول کنٹرول جمال نے اپنا وئیرلیس اٹھایا اور باہر کی طرف بھاگا ۔ ۔ ۔
ڈاکوڈا ۔ ۔ ۔ اپنا انٹروڈکشن کراوء ۔ ۔ میں اس وقت یہاں اسکیورٹی انچارج ہوں ۔ ۔ ۔ برگیڈئیر صالح ۔ ۔ مسٹر صالح ۔ ۔ ہم بمبئی سے گورنرجنرل کو لے کر کراچی کے لیے روانہ ہوئے ابھی ہم لینڈنگ کے لیے ماڑی پور ٹاور سے رابطہ کر ہی رہے تھے کہ ایک چمک سی آئی اور ہمیں اآپ کا رن وے نظر آیا اور ساتھ ہی بتایا گیا کہ یہ کوئی اسلام اآباد ہے ۔ ۔ یہ کون سا ملک ہے ۔ ۔ ۔ ؟
یہ پاکستان ہے ۔۔ ۔برگیڈئیر صالح نے جواب دیا
پاکستان ۔ ۔ ۔ دوسری طرف سے چیختی ہوئی اآواز اآئی
مگر پاکستان میں تو کوئی اسلام اآباد نام کا ائیرپورٹ نہیں ہے ، یہ ایران کا کوئی شہر ہے کیا
مجھے گورنر جنرل سے بات کرنی ہے ، برگیڈئیر نے کچھ سوچ کر کہا
اوکے ۔ ۔ ۔
مسٹر صالح ۔۔ ۔ میں مائک مسٹر جناح کو دے رہا ہوں
یس مسٹر صالح ۔ ۔ ۔ وہاٹ ہیپننگ ہئیر ۔ ۔ ۔ ۔
برگیڈئیر اور روم میں موجود سب کے جسموں میں ایک تھرتھری سی گھوم گئی ، یہ یہ ۔ ۔۔ یہ تو قائد اعظم کی آواز تھی
سس سس سر ۔ ۔۔ آر یو قائد اعظم ۔ ۔ ۔
یس بوائے ۔ ۔ ۔ آئی ایم جناح ۔ ۔ ۔ محمد علی جناح ۔ ۔
اسی لمحے روم کا دروزہ کھلا اور پی ایم کے اے ڈی سی ۔ ۔ بھاگتے ہوئے داخل ہوئے ، سر پی ایم صاحب نے کہا ہے کہ وہ خود جہاز تک جانا چاہتے ہیں
نہیں ۔ ۔ یہ سکیورٹی رسک ہے ، یہ کوئی بڑا ڈرامہ لگتا ہے ۔ ۔ ۔ آل یونٹس الرٹ کر دو ۔ ۔ میں خود جہاز تک جا رہا ہوں
جمال جمال ۔ ۔ ۔ جمال کدھر ہے
سس سس سر میں چینی جہاز کو ڈائورٹ کر رہا تھا چکلالہ ائیر بیس ۔ ۔
ہو گیا ہے ۔ ۔ سر ۔ ۔۔پی ایم نے صدر صاح کو انکے استقبال کے لیے روانہ کر دیا ہے ۔ ۔ کیونکہ وہ اس سچوئشن کو ہنڈل کرنا چاہتے ہیں ۔ ۔
نہیں انہیں جہاز کی طرف نہیں جانے دینا ۔ ۔
سس سس سر وہ جا رہے ۔ہیں ۔ ۔
اور دونوں نے باہر کی طرف دوڑ لگا دی ۔۔ ۔ سلیم اسپیکر کو گھورے جا رہا تھا ۔ ۔۔ جس پر اب پائلٹ کی آواز گونج رہی تھی ۔ ۔۔ ہیلو اٹس ڈکوڈا اسپیشل فلائیٹ ۔۔ ییلو ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو فوجی چیپیں تیزی سے وائی کنگ جہاز کی طرف بڑھی جا رہی تھیں ، گرے رنگ کا جہاز اپنا منہ اٹھائے کھڑا تھا ۔ ۔۔ اسکی کھڑکی سے پائلیٹ جھانک رہا تھا ۔ ۔۔
برگیڈئیر صالح نے جیب سے اترے اور جہاز کی طرف بڑھے جسے اب کمانڈوز نے گھیر لیا تھا اور کسی بھی سچوئشن کے لیے تیار تھے ۔ ۔ فوجی گاڑیوں سے بڑی بڑی
سرچ لائٹس آن ہو چکی تھیں ۔۔۔۔ جس سے جہاز کا انچ انچ روشن تھا ، برگیڈئیر صالح نے جہاز کے کاک پٹ کی طرف منہ اٹھا کہ پائیلٹ سے کہا ۔ ۔ میں برگیڈئیر صالح ہوں
میں اس جہاز کا پائیلٹ ہوں ۔ ۔۔ یہ کون سی دُنیا ہے ۔ ۔۔
دُنیا ایک ہی ہے ۔ ۔ تم کون ہے ۔ ۔ اور یہ کیا مزاق ہے ۔ ۔ مسٹر جناح کیسے ہو سکتے ہیں اس میں وہ ۔۔ تو ۔۔
آپ خود ان سے مل لیں ۔۔ ۔ پائیلٹ نے کہا ۔ ۔ ۔ میں پسنجر گیٹ اوپن کرتا ہوں ۔ ۔ ۔
برگیڈئیر صالح اور جمال دونوں بھاگ کر پسنجر گییٹ کی طرف پہنچے ۔ ۔ ۔ برگیڈئیر صالح کے وائرلیس پر آواز آنا شروع ہوئی
سر اجنبی طیارے کی لینڈنگ کی خبر میڈیا تک پہنچ چکی ہے ۔ ۔ ۔ اور سر یہ بھی بتا جا چکا ہے ۔ ۔ کہ یہ کوئی دوسری جنگ عظیم کا جہاز ہے ۔ ۔ ۔
اوکے ۔۔ میں دیکھوں گا ۔ ۔ کوشش کرو کہ یہ سب کچھ کیاس بنا رہے ۔ ۔ ۔ رائٹ سر
جہاز کا درواز کھل چکا تھا پائیلٹ دروازے پر کھڑا تھا ۔ ۔۔ اس نے سیڑھیاں لگا دیں تھی جو دروازے میں ہی فٹ تھیں ۔ ۔
برگیڈئیر نے پائیلٹ کو دیکھا ۔ ۔۔ وہ ایک ادھیڑ عمر کا شخص تھا ۔ ۔ ۔
کیا یہ ہندوستان کا کوئی شہر ہے ؟
نہیں ۔۔ ۔ یہ پاکستان ہے ۔ ۔۔ یہ پاکستان کا دارلحکومت اسلام آباد ہے ۔ ۔
پاکستان کا دارلحکومت اسلام آباد ۔ ۔ ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ آج تاریخ کیا ہے
آج سات اگست ہے ، کیا میں اندر آ جاوٗں ۔۔ ۔
جج جج جی ضرور پائیلٹ نے اندر کی طرف ہٹتے ہوئے کہا ۔ ۔
برگیڈئیر نے اپنا پستول چیک کیا اور سیڑھیوں پر قدم رکھ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان نیوز چینل کے نیوز روم میں اس وقت ہلچل مچی ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ طاہر اقبال تمام ٹیبل پر ناچتا پھر رہا تھا ، وہ نیوز ڈائرکٹر تھا ، اس کے دنوں ہاتھ میں موبائیل تھے ایک موبائل جیب سے جھانک رہا تھا، وہ کبھی ایک موبائل کو سنا کبھی دوسرے کو ۔ ۔۔ اور ساتھ ساتھ اپنی ٹیم پر بھی چلا رہا تھا
آرکائیو سے دوسری جنگ عظیم کی وڈیو دیکھو ان میں ہونا چاہیے یہ ۔ ۔ ۔ تمہیں کس نے آرکائیو میں رکھا ہے ۔ ۔ ابے اگر تمہارے پاس نہیں ہیں تو نیٹ چیک کرو ، یوٹیوب دیکھو ۔۔ ۔ وہ وہو ۔ ۔ ۔ امریکہ کی آرکائیو لیبریری اب ساری آن لائین ۔ ۔ ۔ ۔۔ سر وہ پیڈ ہے ۔۔ ابے تو ۔ ۔ تو نے پے منٹ کرنی ہے ۔۔ سر فارمل اپرول تو ۔ ۔ ۔ ہاں میں کرتا ہوں ہوں ایم ڈی سے ۔ ۔ اوہ انہیں کا فون ہے ۔ ۔ یس سر ۔ ۔۔ سس سس۔۔ سسر ۔ ۔ سر ۔۔ جج جج جی سر مم ۔ ۔ جج جج ۔ ۔ جج سر ۔ ۔ سر ہم نے ہی بریک کی ہے ۔ ۔ سس سس سر آپ سر میڈم کے ساتھ تھے سر ۔ ۔ سس سس سر ۔ ۔جج جج جی سر ۔ ۔ اوکے سر ۔ ۔ اُف ۔ ۔ ۔ اے سی کے باوجود طاہر اقبال ۔۔ ۔ کے پسینے چھوٹ گئے تھے ۔ ۔ ۔ وہ روز اسی طرح ڈانٹ کھاتا تھا ۔ ۔۔ اور اپنی ڈانٹ اپنی ٹیم کو پلا دیتا تھا ۔ ۔۔
اب کھڑے مونہ کیا دیکھ رہے ہو ۔ ۔ جاؤ ۔ ۔ سر وہ اپروول ۔۔ ہاں ہو گئی ہے ۔ ۔ جاؤ اور جلدی سے بتاوء ۔ ۔ ۔ ہاں ائیرپورٹ پر کون ہے ۔ ۔ ۔ سر ریحانہ ہے ۔ ۔اور بھٹی ہے او بی پر ۔۔ ۔اور کیمرے کتنے ہیں ۔ ۔ ۔ سر دو آؤٹ ڈور ہیں اور ایک سر وی وی اآئی پی روم میں ہے ۔ ۔ ۔ مم مگر سر وہ چینی پی ایم تو چکلالہ میں آئیں گے ۔ ۔ ادھر ٹیم کو موو کر دیں ۔ ۔ ۔ نہیں ۔۔ ادھر دوسری ٹیم بھیجھو یا سرکاری ٹی وی کی فیڈ لے لو ۔ ۔ ۔ یہ نیوز ہماری ہونی چاہیے ۔ ۔ ۔ بھٹی سے بات کراؤ ۔ ۔۔ ڈیسک منیجر نے اپنے موبائیل سے ہی بھٹی کا نمبر ڈائیل کیا ۔ ۔ طاہر اقبال کی نظریں دیوار پر لگے ٹی وی سے لگ گئیں جہاں مختلف اسکرینوں پر مختلف چینل آ رہے تھے ۔ ۔۔ وہ ہنگامہ نیوز کی سکرین دیکھ کر چونک پڑا ۔ ۔ ۔ جس پر بریکنگ نیوز چل پڑی تھی ، بے نظیر ائیرپورٹ پر اترنے والا جہاز ۔ ۔ قائد اعظم کا جہاز ہے ۔ ۔ ۔اور ساتھ ہی کراچی میوزم میں رکھے ہوئے جہاز کی وڈیو دکھائی جانے لگی ۔ ۔ ۔جس پر فائل وڈیو لکھا نظر آ رہا تھا ۔ ۔ اور باتا جا رہا تھا کہ میوزم پر کمانڈوز کا پہرا لگا دیا گیا تھا ۔ ۔ ۔ اور کسی کو بھی اندر داخل نہیں ہونے دیا جا رہا تھا
سر بھٹی سر ۔ ۔۔ ہاں ۔۔ طاہر نے چونک کر موبائل اسکے ہاتھ سے لے لیا ۔ ۔ بھٹی کیا اب ڈیٹ ہیں ۔ ۔۔ سر ہم نے جہاز کی فُٹیج بنا لی ہے ۔ ۔۔ گُڈ ۔ ۔۔ سر بھیج رہا ہوں ۔ ۔ ۔ سر یہ جہاز اُس جہاز جیسا ہے جس میں قائد اعظم پاکستان آئے تھے ۔ ۔ کیا واقع ہی ۔۔ ہاں سر ۔ ۔۔اور سر جہاز کی کھڑکیوں میں لوگ نظر آ رہے ہیں کمانڈوز نے جہاز کو گھیرا ہے ۔۔ ۔ لوگوں کے چہرے نظر اآ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ سر فٹج بہت دور سے لی ہے ۔۔ ۔ سر رییج میں نہیں ہیں ۔ ۔۔ ایک فوجی افسر جہاز کے اندر گیا ہے ۔ ۔ ۔ سر ہم نے یہ فتج اے ایس ایف کے آٍفس سے بنائی ہے ، ، ، سر پچاس ہزار میں ۔ ۔۔ اوہ ٹھیک ۔۔ ہے ۔۔ ۔ تمہیں پتہ ہے کہ ۔ ۔۔ ۔سر یہ دیکھیں سر یہ تو ۔ ۔ ۔ ۔ سر یہ قائد اعظم کے جہاز کی وڈیو ہے ۔۔ ۔ ماڑی پور پر جب اس جہاز کی آمد ہوئی تھی ۔ ۔ ایک ڈیسک رپورٹر نے اپنی اسکرین اسکی طرف کی اور دوسرے نے بھٹی کی بھیجی ہوئی وڈیو ۔ ۔۔ جہاز ایک جیسے تھے دونوں اسکرینز پر مگر ایک بلیک اینڈ وائٹ وڈیو تھی ۔۔۔ دوسری ۔ ۔ ۔ کلر ۔ ۔ ۔۔ بریک اٹ بریک اٹ ۔ ۔۔ وہ ہسٹریائی انداز میں چیخا اور ۔ ۔ کچھ دیر بعد ہی ہر ایک چینل نے اپنے پروگرام روک کر ایک ہی خبر لگانا شروع کر دی تھی ۔ ۔ ۔۔ ١٩٤٧ کے جہاز کی اسلام اآباد ائیرپورٹ پر پرسرار لینڈنگ ۔ ۔۔ اور کچھ ہی دیر بعد ۔ ۔ ۔ ایک اور بریکنگ نیوز چل رہی تھی ۔ ۔۔ کراچی کے میوزیم سے قائد اعظم کا تاریخی جہاز غائب ہو گیا تھا ۔۔ ۔۔

ریحانہ جوکہ پی این سی کی رپورٹر تھی اسکے حکومتی حلقوں میں وسیع تعلقات تھے خاص کر پی ایم کے اے ڈی سی فاخر سے تو اس کی بہت بنتی تھی ، اسی لیے وہ اس وقت اس کا دم چھلہ بنی ہوئی تھی ۔ ۔۔ جو پی ایم کو بتا رہا تھا کہ برگیڈئیر صالح جہاز کے اندر جا چکے ہیں اور اندر جاتے ہی انکے وائرلیس کے سگنل بند ہو گئے ہیں اور انکا موبائل بھی بند جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ پھر کسی اور کو اندر جانا چاہیے کیا جہاز کا دروازہ بند ہو گیا ہے ، پی ایم نے پوچھا نن نہیں سر ۔ ۔ ۔ کمانڈرز بتا رہے ہیں کہ اندر بہت روشنی ہے جس سے کچھ واضح نظر نہیں آ رہا ۔ ۔ ۔ اسی لمحے فاخر کے موبائیل کی تھرتھراہٹ ہوئی ۔ ۔۔ ہیلو ۔۔ ۔ یس برگیڈئیر ۔ ۔۔ ۔ ۔ سس سس ۔ ۔ سر ۔ ۔ ۔ برگیڈئیر صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں ۔ ۔۔
ہاں مسٹر صالح ۔ ۔ پی ایم ہئیر
کک کیا کہ رہے ہیں آپ ایسا کیسے ممکن ہے ؟
پھر دوسری طرف کی سننے لگے ۔ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔۔ کیا آپکو یقین ہے ۔ ۔۔ یہ تو آپ جادونگری والی باتیں کر رہے ہیں ۔ ۔۔
آپ کو کیسے یقین ہے کہ یہ وہ ہی ہیں ۔ ۔۔
تصویریں ستر سال پرانی ہیں مسٹر صالح ۔ ۔۔ اور آپ اکیسویں صدی میں ہو ۔ ۔ ۔ ۔
دُنیا بہت جدید ہو چکی ہے ۔ ۔۔ ہمارے دشمن ہر طرح کی چال چل سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے بھی یہ کوئی چال لگتی ہے ، آپ کو پتہ ہی ہے کہ ان دنوں مغرب ہم سے بہت نالاں ہے ۔ سائنس کی ترقی ایسے شعبدے دکھا سکتی ہے
پی ایم کا لہجہ انتہائی مدبرانہ تھا
ہاں یہ ٹھیک ہے ۔ ۔۔ ہم بلیک روم ۔۔ ۔ ۔ چلتے ہیں ۔۔ ۔۔
جاہل کہیں کا ۔ ۔۔پتہ نہیں کیسے برگیڈئیر بن گیا ۔ ۔ ۔ پی ایم بُڑبڑائے
پی ایم نے فون فاخر کو دے دیا ۔ ۔۔
بلیک روم کی طرف جانا ہو گا
سر ۔۔ کک کیا کہا انہوں نے ، ریحانہ ۔ ۔ نے پوچھا ۔ ۔ اوہ آپ ادھر تھیں ،
فاخر مجھے یہ پسند نہیں کہ یہ باتیں میڈیا تک جائیں
سس ۔۔ سوری سر ۔۔۔ مس ریحانہ ۔ ۔ ۔آپ پلیز سچوئشن سمجھیں ۔ ۔۔ ۔ دس وے سر ۔ ۔۔ فاخر نے ریحانہ کو رکنے کا اشارہ کیا
اور دونوں اسپیشل وے کی طرف چلے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی این سی کے نیوز اسٹوڈیو میں اس وقت دو بڑی عمر کے لوگ ایکسپرٹ کے طور پر موجود تھے ، اور تبصرہ کر رہے تھے
دیکھیے جی ، میں بھی اس کو کسی دشمن کی سازش سمجھتا ہوں ، مغرب کی دنیا ہماری توہم پرستی اور معجزہ پرستی سے اچھی طرح آگاہ ہے وہ خود تو ان چیزوں سے نکل کر سائنس کی ترقی سے اپنے لوگوں کو سہولتیں دے رہے ہیں اور نئی نئی دنیائیں دریافت کر رہے ہیں اور ہمیں اپنی ایجادات سے سحر میں مبتلا کر رہے ہیں ۔ ۔۔ آپ کو پتہ ہی ہو گا کہ لاؤڈ اسپیکر کو شیطان کی آواز اور ٹی وی کو دجال کی آنکھ بھی قرار دیا گیا مگر آج یہ سب کچھ ہماری زندگی کا حصہ ہیں ، ہالو گراف سے آپ ہوبہو پرانی دنیا تخلیق کر سکتے ہیں ۔، ۔
دوسرے ماہر نے کہا ، پروفیسر صاحب آپ کی بات کسی قدر ٹھیک ہے ، مگر سائنس میں ایسے واقعیات موجود ہیں جن کی کوئی توجیہ نہیں دی جا سکتی ہے ، پین ایم کی فلائٹ ٩١٤ کا قصہ ہی لے لیں جو سینتیس سال بعد لینڈ ہوئی تھی ۔۔ ۔ وہ دوسری جنگ عظیم کا چھے جہازوں کا اسکوارڈن ۔۔ ۔ جو مریخ کے گرد چکر لگا رہے ہیں ۔ ۔۔ اور ۔ ۔۔ اس پائلیٹ کا کیا کہیں گے جو نواڈا کے صحرا میں ملا تھا کہ وہ دوسری جنگ عظیم میں غائب ہوا تھا اور چالیس سال بعد صحرائے نواڈا میں اترا تھا ۔ ۔۔
جناب یہ سب جھوٹی خبریں ہیں ۔ ۔۔ ان میں کوئی صداقت نہیں ۔ ۔۔ ایسے تو اسٹیفن ہاکنگ صاحب نے بھی وارم ہولز سے ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں چھلانگ کا تصور پیش کیا ہے ۔ ۔مگر وارم ہول کے ہونے کی تصدیق آج تک نہیں ہو سکی بس جیسے میٹر انٹی میٹر کی باتیں ہیں ۔ ۔ ۔ اور تو اور ۔ ۔ ۔
سر سر ۔ ۔ مجھے آپ کو روکنا پڑے گا ، میزبان نے دونوں کی طرف ہاتھ اٹھا کہ کہا ۔ ۔۔ ایک بڑی فوجی وین جہاز کی طرف بڑھ رہی ہے اور ساتھ ہی جہاز کے اطراف میں بڑے بڑے پردے لگا دیے گئے ہیں ۔ ۔۔جیپ کے شیشے سیاہ ہیں ۔ ۔۔ اور یہ جیب اب پردوں کے پیچھے چلی گئی ہے ۔۔۔۔ پروفیسر صاحب آپ کیا کہتے ہیں کہ یہ سب کیا ہے ۔۔ ۔ ایک پرسرار جہاز کا پاکستان کی زمین پر اترنا جبکہ ہمارے دوست ملک چین کے صدر اپنے ایک بہت اہم دورے پر آ رہے ہیں ، اور سب سے زیادہ پراسرار یہ بات کہ کراچی سے ایسا ہی ایک جہاز غائب ہے ۔۔ ۔ اب جہاز کوئی چھوٹی چیز نہیں ہے کہ اسے کوئی ایسے جیب میں ڈالے اور لے جائے وہ بھی فوجی ایریا سے ۔ ۔ ۔ جہاں دن رات کا پہرا ہو ۔ ۔ جی پروفیسر صاحب
دیکھیے کراچی سے قائد کے طیارے کا غائب ہونا ہی سازش کی نشاندہی کرتا ہے ، اور یہ کوئی معجزہ وغیرہ نہیں ہے بلکہ مکمل سازش لگتی ہے ۔ ۔ ۔
نن ناظرین ہمارے پاس ایک بہت عجیب سی نیوز آ رہی ہے ۔ ۔۔ کہ طیارے سے اترنے والے بلکل بابائے قوم قائد اعظم اور مادر ملت فاطمہ جناح جیسے ہیں ۔ ۔۔ ۔ ہمارے ساتھ وڈیو لنک پر ہیں ریحانہ ۔ ۔ جی ریحانہ آپ نے کیا دیکھا ہے

جی ہمارے ذرائع نے ہمیں یہ کنفرم کیا ہے کہ جہاز میں جانے والے فوج افسران نے خود وہاں ملاقات کی ہے ، ان دو لوگوں سے جو قائد اعظم اور فاطمہ جناح کے روپ میں ہیں ۔ ۔۔ ساتھ ہی ٹی وی اسکرین پر قائد اور مادر ملت کی ماڑی پور آمد کی وڈیو چل پڑی ۔ ۔ ۔ اور بار بار بریکنگ نیوز ۔ ۔ ۔ آنے لگی ۔ ۔۔ قائداعظم اور فاطمہ جناح ۔ ۔ ۔ ÷؟؟؟؟ یہ کون لوگ ہیں ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برگیڈئیر صالح ابھی تک اس شخص سے آنکھیں نہیں ملا سکا تھا جس کو اسنے قائد اعظم کے روپ میں بلیک روم میں پہنچایا تھا ، بلیک روم کی دیواریں اندھے شیشوں کی تھیں اور ان میں انتہائی طاقتور مائک فکس تھے جن سے ایک سوئی گرنے کی بھی آواز ریکارڈ ہوتی تھی ، اس روم کو عام طور پر ان لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا کہ جن پر شک ہو اور وہ خود کو اکیلا سمجھ کہ کوئی ایسی بات کر دیں جو پکڑی جائے ، شیشوں کے دوسری طرف بیٹھے پی ایم اور انکے رفقا بھی چونک پڑے تھے کہ دونوں شخصیات میں اصل نقل کی کوئی تمیز نہیں تھی ، تشریف رکھیے ، برگیڈئر نے ایک صوفے کی طرف اشارہ کیا
اب آپ اپنا تعارف کروا دیں ۔ ۔ ۔
تعارف (قائد نے انگریزی میں بات کی )
جی تعارف
میں محمد علی جناح ہوں اور یہ میری بہن فاطمہ ہے ، میں پاکستان کا نامزد گورنر جنرل ہوں ، مجھے دو اگلے ہفتے اس عہدے کا حلف اٹھانا ہے ۔ ۔۔
آپ کو پتہ ہے یہ کون سا سال ہے
ہاں یہ سنتالیس ہے انیس سو سنتالیس، کیوں کیا یہ غلط ہے ، شاید یہ کمرہ اے سی والا ہے ، مجھے ٹھنڈک محسوس ہو رہی ہے ، اگست میں اتنا ٹھنڈا موسم نہیں ہوتا
یہ انیس سو سنتالیس نہیں ہے ،
تو ۔ ۔۔ کیا یہ پاکستان نہیں ہے ۔ ۔۔ میرا مطلب ہے کہ ہندوستان کا کوئی علاقہ ہے ، فاطمہ جناح کی آواز میں لرزش تھی
۔ ۔ ۔ ۔ یہ بیس سو سترہ ہے ۔ ۔۔ اور آپ پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں موجود ہیں ، اور اب آپ سچ بتائیں کہ یہ سب کیا ہے ، آپ کون لوگ ہیں ، قائد اعظم اور فاطمہ جناح کو فوت ہوئے عرصہ گذر چکا ہے
کیا مطلب ۔ ۔۔ دونوں نے ایک ساتھ کہا ۔ ۔ یہ کیسے ممکن ہے ۔ ۔۔ یہ کون سا پاکستان ہے ، پاکستان کا دارلخلافہ کراچی ہے ۔ ۔۔
تھا ۔ ۔ اب نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کوئی بہروپیے ہیں ۔۔ ۔برگیڈئیر کے لہجے میں بے یقینی تھی
اسی لمحے دروازہ کھلا اور میجر ساجد داخل ہوا ،اور سیلیوٹ مارا اور دونوں کو گھورتے ہوئے بولا
بہت زبردست میک اپ لگتا ہے ، ماسک تو ہو نہیں سکتا ، پلاسٹک سرجری کا کمال لگتا ہے
میجر ساجد آئی ایس آئی میں انوسٹیگیشن سیل کا انچارج تھا ، اور جدید ترین ٹیکنالوجی ۔ ۔ سے آگاہ تھا
مجھے بہت عجیب سا لگ رہا ہے میجر ۔ ۔۔ مگر ہم یہ کیسے ثابت کریں گے کہ یہ نہیں ہیں وہ ،
فنگر پرنٹ تو اب بنا لیے جاتے ہیں ، ہم ڈی این اے ٹیسٹ کریں گے ۔ ۔ ۔
اور سر یہ بات میڈیا تک پہنچ چکی ہے کہ جہاز سے اترنے والے افراد کن جیسا روپ دھارے ہیں
ایک تو ہمارا میڈیا انتہائی لاپرواہ ہے ۔ ۔ ۔ یہ خبر ضرور فاخر کی محبوبہ نے دی ہو گی ۔ ۔ میں اسے دیکھتا ہوں، تم ان لوگوں کو کہاں لے جاوء گے ؟
سر اپنے سیل میں لے جاؤں گا ،
اوکے میں پی ایم کو آگاہ کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ میجر نے ایک بار پھر سلیوٹ مارا کیونکہ عہدے کا پروٹوکول یہ ہی کہتا تھا
چلو قائد اعظم جی ۔ ۔ آپ کو پاکستان کا نظارہ کرائیں ۔ ۔ ۔صبح ہو گئی ہے ۔ ۔ ۔ میجر نے اپنے ساتھ آنے والے کو کہا انکو ہم پوانئٹ فائیو پر لے جائیں گے ، ہیلی کاپٹر منگواؤ اور انکے ساتھ کتنے لوگ ہیں
سر سات ہیں ۔ ۔ ۔ دو اور بھی لیڈر ہی ہیں جبکہ تین جہاز کے عملے کے لوگ ہیں ۔ ۔ ۔
اوکے ۔ ۔ ۔ جب ہیلی کاپٹر آ جائے تو مجھے بتانا ۔ ۔ ۔ہری اپ
یس سر ۔ ۔۔ ۔ اسنے سلوٹ کیا اور ۔ ۔ ۔ باہر نکل گیا ، میجر دونوں کو پھر سے گھورنے لگا جن کے چہرے پر پریشانی صاف نظر آ رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین کے وزیر اعظم کو چینی سفارت خانے میں پہنچا دیا گیا تھا ، پی ایم اور عسکری حکام کی اعلٰی سطح کی میٹنگ کال کی جا چکی تھی ، چینلز پر طرح طرح تبصرے ہو رہے تھے ، کراچی کے میوزیم میں جہاز کی گمشدگی کے لیے سی سی ٹی وی فٹج کو دیکھا گیا تھا ، جس میں جہاز ایک دم سے غائب ہو گیا تھا مگر اس کے غائب ہونے سے پہلے ایک بہت تیز قسم کی بجلی کا جھماکا بھی ہوا تھا ۔ ۔۔ اعلٰی حکام نے یہ وڈیو بار بار دیکھی اور ایکسپرٹ کو بھجوا دیا گیا اسے ، اس وڈیو کی بہت حفاظت کی جا رہی تھی اور متعلقہ عملے کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر شفٹ کر دیا گیا تھا ۔ اسلام آباد ائیر پورٹ پر کھڑے جہاز کو ماہرین کی ٹیم ایگزمن کر رہی تھی ۔ ۔ ۔ دُنیا میں اس جیسے پانچ جہاز مختلف میوزیم میں موجود تھے سب سے رابطہ کیا جا رہا تھا ۔ ۔ انٹرنیشنل میڈیا نے اس خبر کو زیادہ اہمیت نہیں دی بلکہ اسکو چین اور پاکستان کے اصل منصوبوں سے توجہ ہٹآنے کے لیے ایک اسٹنٹ قرار دیا تھا ۔ ملکی میڈیا سائنسدانوں سے لیکر سیاسی و عسکری ماہرین کے ساتھ ساتھ ۔ ۔۔ اب عاملوں اور علم نجوم اور مخفی علوم کے ماہرین کے تبصرے بھی نشر کر رہا تھا ۔ ۔۔عوام میں اکثریت اسے حکومت کے اصل امور سے توجہ ہٹآنے کا اسٹنٹ قرار دے رہی تھی ، مگر ایسے افراد کی بھی کمی نہیں تھی جو اسے سچ سمجھ رہے تھے ، اور معجزہ قرار دے کر ایک نئے پاکستان کے لیے قائد کی آمد کو خوش آئین سمجھ رہے تھے ، غرض بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی تھیں ۔ ۔ ۔
دوسری طرف اعلٰی حکام ، رپورٹ کے منتظر تھے ۔ ۔ ۔ دن کے بارہ بجنے والے تھے کہ میٹنگ روم میں میجر ساجد داخل ہوا اسکے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا ۔ ۔ ۔ سب کی نظریں اسکی طرف اُٹھ گئیں ۔ ۔ ۔ اسکے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہیں تھیں ۔ ۔ ۔
وہ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ ڈی این اے کی رپورٹ آ گئی ہے ۔ ۔ ۔وہ وہو ۔ ۔ ۔وہ ۔ ۔ اصلی قائد اعظم ہیں ۔ ۔۔
کیا ۔ ۔ ۔ کمرہ ۔ ۔ ۔ گونج اُٹھا ۔ ۔۔ اور پھر ایک دم سے سناٹا چھا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت بحث و تکرار کے بعد فیصلہ ہوا کہ قائد کے سامنے حقیقت رکھی جائے ، قائد اور انکے ساتھیوں کو بہت احترام سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے جوائنٹ سیشن میں شرکت کرائی جائے اور انکا خطاب کروایا جائے ، مگر اس سے پہلے انہیں موجودہ پاکستان کے بارے میں بتایا جائے اور یہ بھی بتایا جائے کہ پچھلے ستر برسوں میں کیا کیا ہوا ہے ۔ اور دُنیا کے بارے میں بھی بتایا جائے۔ اسکے لیے پہلے ایک بریفنگ سیشن کیا جائے ، اور وزیر اعظم اور صدر مملکت اور آرمی چیف سب سے پہلے قائد سے اس سلوک پر معذرت بھی کریں گے ۔
جب سب لوگ میٹنگ ہال میں اکھٹے ہوئے تو وزیراعظم نے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا تعارف کروایا ، مگر قائد اور انکے ساتھیوں کے چہرے سے پرشانی صاف عیاں تھیں ، پائیلٹ نے کھڑے ہو کر ۔ ۔ کہا کہ ۔ ۔۔ اس سے پہلے اآپ ہمیں گائیڈ کریں ، ہم اآپ کو کچھ بتانا چاہتے ہیں ، جی جی ضرور ۔ ۔ ۔آپ کہیے
سر ہم جب سندھ کی حدود میں داخل ہوئے تو ایک دم سے ایک روشنی کا جھماکا ہوا اور اندھیرا چھا گیا ، مگر جلد ہی ائیر پورٹ کے رن وے کی روشنیاں نظر آئیں اور ہم یہاں اُتر گئے ، پھر آپ کو پتہ ہی ہے کہ کیا ہوا ، مگر ایک چیز جو ہمیں کچھ دیر پہلے پتہ چلی ہے وہ یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ ہم غلط وقت میں غلط جگہ آ گئے ہیں ، ہمیں اپنے وقت میں جانا ہو گا اور اسکے لیے ہمارے پاس صرف دس گھنٹے ہیں ۔ ۔۔
کک کیا مطلب ، آرمی چیف نے پوچھا
یہ دیکھیے ، یہ میری گھڑی ، یہ اُلٹی چل رہی ہے ، اور بار بار بارہ بجے والا نشان چمکتا ہے ، ۔ ۔ ۔
اوہ ۔۔ ۔سب کے منہ سے نکلا
تو ہمارے پاس وقت بہت کم ہے ، قائد کو اس سب کا اندازہ ہو چکا ہے ، پائیلٹ بیٹھ گیا
تو قائد کھڑے ہوئے انکے احترام میں وزیراعظم ، صدر اور چیب بھی کھڑے ہو گئے ، نہیں نہٰں اآپ لوگ بیٹھیے ، میں سب سے پہلے پاکستان کے بارے میں جاننا چاہوں گا
وزیر اعظم نے کہا ، قائد آپ پاکستان بننے کے ایک سال بعد ہی فوت ہو گئے تھے اور پھر تین سال بعد لیاقت علی خان کو بھی قتل کر دیا گیا
کیا ۔ ۔ ۔ قائد اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے ، لیاقت کو قتل کردیا گیا ، مگر کیوں ، کس نے ۔ ۔
یہ راز آج تک راز ہی ہے ، محترم قائد ، قائد کے چہرے پر غم کے آثار تھے ۔ ۔۔ اور پھر
پھر مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا ، ہم نے بھارت کے ساتھ دو بڑی جنگیں لڑیں ، ایک میں کامیاب اور ایک میں بری طرح ناکام رہے
الگ ہو گیا کیا مطلب،
مطلب وہ اب ایک نیا ملک ہے ، بنگہ دیش ۔ ۔ ۔
قائد کے چہرے پر کرب کے آثار بڑھ گئے تھے ، پھر، مجھے تفصیل سے بتاؤ ۔ ۔ ۔
سر ہم نے ایک بریفنگ رکھی ہے ، اس کے لیے ملک کے ماہر تاریخ دان آپ کو تفصیل بتائیں گے اور آپکے سوالوں کے جواب بھی دیں گے ، مگر اس سے پہلے آپ کی ضیافت کا انتظام کیا گیا ہے جہاں آپ عوامی نمائدگان سے خطاب کر سکیں گے
نہیں ، قائد نے ہاتھ اُٹھا کر کہا ، پہلے ہم پاکستان کے بارے میں جاننا چاہیں گے پھر ۔۔ ۔ کسی سے بات کر سکیں گے
جیسے آپ کی مرضی ، تو پھر ہم بریفنگ روم میں چلتے ہیں ۔ ۔ ۔ سب اُٹھ کھڑے ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریفنگ پارلیمنٹ کے میڈیا روم میں رکھی گئی تھی جہاں ایک سینما سائز کی اسکرین موجود تھی اور بہترین پروجیکشن سسٹم موجود تھا، بریفنگ کے لیے آدھے گھنٹے کی ہسٹری ریل تیار کی گئی تھی ، جو کہ پہلے سے بنی ہوئی ہسٹری ریلز کو اکھٹا کر کہ بنائی گئی تھی ، سب افراد اب سیٹوں پر براجمان ہو چکے تھے ، قائد اپنے ساتھ بیٹھے وزیر اعظم کو کہ رہے تھے
پاکستان نے بہت ترقی کی ہے، اتنی شاندار بلنڈنگز اور یہ سب جدید ترین آلات ، اس کا مطلب یہ لگ رہا ہے کہ پاکستان دنیا کے جدید ترین ممالک میں شامل ہو چکا ہے
جی سر ، ہمارے پاس اس وقت دنیا کی ہر جدید سہولت موجود ہے
کیا یہ صرف حکومت کے پاس ہے ؟ یا عوام کے پاس ۔ ۔ ۔بھی ہے ؟
عوام کے پاس بھی ہے ، مگر سب کے پاس نہیں ، وزیر اعظم نے گول مول جواب دیا، اور اسی لمحے آواز گونجی
اسلام علیم ، میرا نام پروفیسر کلیم یزدانی ہے ، میں ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں تاریخ پڑھا رہا ہوں ، میری خوش قسمتی کہ میں پاکستان کے معماروں کے سامنے پاکستان کی تاریخ کو پیش کروں گا ، یہ سب کچھ ہم نے مختلف نیوز ریلز اور اخبارات سے تیار کیا ہے ، اس کے لیے میں یہ پرزینٹیشن اور ڈاکومنٹری کو پیش کروں گا اور پھر آپ کے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کروں گا، تو اجازت ہے ، پروفیسر نے قائد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
کنٹینیو پروفیسر ۔ ۔ ۔ قائد نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا اور ہال میں روشنیاں مدھم ہو گئیں اور اسکرین روشن ہو گئی اور اسکرین پر ابھرا
کرونیکل آف پاکستان
چودہ اور پندرہ اگست انیس سو سنتالیس کو قیام پاکستان کا اعلان ہوا ، رات بارہ بجے سے پہلے قائد اعظم نے ریڈیو سے قیام کا اعلان کیا ، اور بعد میں پنڈٹ جواہر لال نہرو نے ہندوستان کی آزادی کا ، قائد اعظم نے کراچی میں پہلے اسمبلی اجلاس کی صدارت کی اور دنیا کے نقشے پر ایک نئی قوم اور ملک اُبھرا جس کا نام پاکستان ہے (پاکستان کی پہلی اسمبلی کی کاروائی دکھائی جا رہی تھی)
ابھی تقسیم کا عمل پورا بھی نہ ہوا تھا کہ بھارتی فوج نے کشمیر پر حملہ کر دیا جس کے بعد پاکستان کی بہت تھوڑی فوج کو یہ جنگ کرنا پڑی اور اس جنگ میں قبائلیوں نے پاک فوج کا ساتھ دیا ،اور کشمیر کا بہت سا علاقہ آزاد کروا لیا ، جسے آج آزاد کشمیر کہتے ہیں اور باقی علاقے کو مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں اور یہ آزادی کی جنگ کشمیری آج تک لڑ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ (اسکرین پر کشمیری مجاہدین کو دکھایا جا رہا تھا )
قائداعظم اور لیاقت علی خان کے سامنے سب سے پہلا کام مہاجرین کی آبادکاری تھی ، وہ لوگ جنہوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی تھی ، یہ دنیا کی سب سے بڑی نقل مکانی کہلائی گئی ، اس میں پندرہ سے بیس لاکھ افراد نے اپنی جانیں قربان کی اور کروڑوں لوگ بے گھر ہوئے (اسکرین پر مہاجرین کی آمد اور جلاؤ گھراؤ کے مناظر دیکھائی دے رہے تھے) قائد کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے ، انکے ساتھ فاطمہ جناح بھی اپنے ڈوپٹے سے آنسو صاف کر رہیں تھیں
قائد اعظم نے اسی دوران ڈھاکہ کا دورہ کیا ، جہاں یونیورسٹی میں قائد نے پاکستان کی قومی زبان اردو کو قرار دیا ، جو آگے چل کہ پاکستان کے ٹوٹنے کا سبب بنا ۔
واٹ ۔ ۔ ۔ قائد اپنی سیٹ سے اُٹھ کھڑے ہوئے ، وہاٹ دا ربش ، قائد کے چہرے پر غصہ تھا
سس سس سر ، ایسا ہی ہوا تھا ، یہ سوال آج تک تشنہ ہے کہ آپ نے ایسا کیوں فرمایا تھا ؟
کیا اس کو سمجھنے کے لیے کسی بہت بڑے دماغ کی ضرورت تھی ؟ قائد نے کی آواز میں کڑک تھی ؟ کیا اردو تمام ہندوستان میں سمجھی جانے والی زبان نہیں ہے ؟ یہ وہ واحد زبان ہے جو ہندوستان کے رہنے والوں کے درمیان رابطے کا کام دیتی ہے ، حتہ کہ ہندو اور مسلمان اپنی مذہبی کتابوں کو سنسکرت اور عربی میں پڑھتے ہیں جبکہ انہیں سمجھنے کے لیے اردو کا سہارا لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ کیا بنگال کا ٹیگور اور پنجاب کا اقبال پنجابی یا بنگالی میں ہی مقبول ہوا ؟ جب تک اردو میں وہ نہیں بولے یا ترجمہ نہیں ہوا ۔ ۔۔
سس سر ، مگر اسی بات کو ہی بیس بنا کر بنگالی قومیت کا پرچار کیا گیا
کیوں ؟ قائد کے لہجے میں سختی تھی ، اگر بنگالی قومیت کا پرچار کرنا ہوتا تو تین جون میں بنگال کے بٹوارے پر ہوتا ، پاکستان دو قومی نظریے پر بنا ہے ، دو قومیں ہیں ایک مسلمان ایک ہندو ۔ ۔ اور یہ قومیں نفرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ مختلف ہونے کی بنیاد پر الگ الگ ہیں ، میں نے کئی بار اس کی وضاحت کی ہے کہ ۔ ۔ کہ ہم ہندو سے نفرت نہیں کرتے بلکہ ان سے مختلف ہیں اور ہم اپنے نظام زندگی کے تحت الگ ملک بنانا چاہتے ہیں وہ نظام جو ہمیں اسلام نے دیا ہے ۔ ۔ ۔ کیا تم لوگ اس بات کو جھٹلا چکے ہو ؟
نن نہیں سر ،مگر آپ تو پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے
واٹ ۔ ۔ ۔ یہ تم نے کیسے کہا ؟
سر آپ نے گیارہ اگست ١٩٤٧ کو یہ فرمایا تھا کہ پاکستان میں اب سب آزاد ہیں کوئی ہندو کوئی مسلم چاہے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو وہ اپنی عبادت کے لیے آزاد ہے ، ریاست کا کسی کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں
گیارہ اگست ، مگر آج تو سات اگست ہے ، اور اگر یہ بات میں نے کہی بھی ہو گی تو ، کیا یہ غلط ہے ؟ ہمیں ہمارا اسلام یہ ہی سیکھاتا ہے ، کیا قرآن نہیں کہتا کہ دین پر جبر نہیں ؟ اور پاکستان کو اگر سیکولر ریاست بننا ہوتا تو کیا ہندوستان میں کوئی تھیوکریٹ گورنمنٹ بن رہی تھی ؟ یا مذہبی ریاست تھی ؟ ہندوستان کبھی بھی ہندو ریاست نہیں بن سکا ، یہ ہی تاریخی حقیقت ہے پچھلے ہزار سال سے ہندوستان ایک مسلم ریاست مانا گیا اور اس سے پہلے کیا ہندوستان ریاستوں میں تقسیم نہیں تھا ؟ سوائے اشوک کے عہد کے ؟
پروفیسر صاحب صرف سر ہلا کر رہ گئے ، سس سر یس سر ۔ ۔، میں ایفکٹ کی بات کر رہا تھا ۔ ۔ کہ ایسا ہوا
میرے خیال میں ہمیں بحث نہیں کرنی چاہیے ، ہم نے قائد کو وہ بتانا ہے جو ہوا ہے اگر ہم بحث میں الجھ گئے تو شاید ہم کچھ بھی نہ بتا سکیں ۔ ۔۔ صدر صاحب نے شاید پہلی بار بولا
جج جی سر ، پروفیسر صآحب نے ریموٹ کا بٹن دبا دیا
اور اسکرین دوبارہ چلنی شروع ہوئی
ابھی نئی مملکت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو نہیں پائی تھی کہ ستمبر اڑتالیس میں قائد اعظم کی وفات کا قوم کو صدمہ سہنا پڑا (قائد کے جنازے کی فلم چلائی جانے لگی) اور قیادت لیاقت علی خان نے سنبھالی
لیاقت علی خان کو امریکہ اور روس کی طرف سے دورے کی پیشکش ہوئی ، مگر لیاقت علی خان نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور امریکی دورے پر روانہ ہو گئے ، یہاں سے پاکستان ایک امریکی اتحادی کی صورت میں ابھرا جبکہ ہندوستان نے روس کا ساتھ دیا ، اس زمانے میں دنیا واضح طور پر دو کیمپوں میں بٹ گئی ۔ ۔ ۔
قائد اعظم نے ہاتھ اُٹھا کر روکنے کا اشارہ کیا ، یس سر، پروفیسر نے پوچھا
پاکستان نے امریکہ کا ساتھ کیوں دیا جبکہ روس امریکہ سے زیادہ قریب تھا ، جغرافیائی طور پر ہمیں روس کا ساتھ دینا چاہیے تھا نہ کہ ہزاروں میل دور امریکہ کا ؟
سر شاید اس لیے کہ روس کا رویہ مسلمانوں سے کوئی اچھا نہیں تھا اور وہاں ایک ڈکٹیٹر کی حکومت تھی ، جبکہ امریکہ ایک جمہوری ملک تھا جہاں افراد کی آزادی کو اہمیت دی جاتی تھی
ہممم ۔۔ امریکہ اور جمہوریت ۔ ۔ ۔ جمہوریت صرف ووٹ دینے کے حق کو نہیں کہتے کیا ؟ امریکہ میں سیاہ فاموں کو ووٹ کا حق نہیں ، حواتین کو بھی ووٹ کا حق کئی سو سال بعد دیا گیا ، اور کیا امریکہ نے ایٹم بم سے تباہی نہیں پھیلائی ؟
سر ۔ ۔ امریکہ میں سیاہ فام اب صدر کے عہدے تک پہنچے ہیں ، یہ ساٹھ کی دہائی میں بہت کچھ بدل گیا تھا امریکہ میں
تو کیا امریکہ نے ہمارا ساتھ دیا ؟ فاطمہ جناح نے پوچھا
نہیں محترمہ ، امریکہ نے ہمیں اکثر دھوکا دیا ، سن پینسٹھ کی جنگ میں اور اکہتر کی جنگ میں امریکہ نے بظاہر نیوٹرل کا کردار ادا کیا مگر پس پردہ اور کبھی ظاہری طور پر بھارت کا ساتھ دیا
اوہ ۔ ۔ ۔۔ یعنی ہم ایک طفیلی ریاست بنے ؟
بہت حد تک قائد محترم
یا خدایا ۔۔ ۔ میں نے کیا سوچا تھا اور کیا ہوا ۔ ۔۔ قائد کے چہرے پر غم کے تاثرات اور گہرے ہو گئے
تو کیا لیاقت کے قتل کی وجہ یہ تھی ؟
شاید ، کیونکہ لیاقت علی خان کو قتل کرنے والا ایک افغان تھا اور پھر اسے اسی وقت ایک پولیس افسر نے قتل کر دیا اور پھر یہ راز ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا کہ اسے کس نے بھیجھا تھا اور قتل کے محرکات کیا تھے
لیاقت کے بعد کون آیا اور میرے بعد کون گورنر جنرل بنا اور ساتھ میں یہ بھی بتا دو کہ آج کون ہے گورنر جنرل ، کیونکہ میرے ساتھ صدر اور وزیر اعظم ہیں ۔۔ یعنی کیا گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے ؟؟ چییف ایگزیٹو کون ہے
سر آپ کے اپنے فرمان کے مطابق ، پاکستان میں امریکہ کی طرح صدارتی نظام ہونا چاہیے تھا، ہم نے پچھلے ستر سال میں ہر طرح کی حکومت کے تجربات کیے ، جن میں صدارتی طرز حکومت بھی شامل ہے اور پارلیمانی اور فوجی بھی
فوجی بھی ۔ ۔۔ کیا مطلب ؟ کیا فوج بھی پاکستان کی حکمران رہی ؟
جی سر ، پچھلے ستر سالوں میں نصف عرصے میں فوجی حکمران رہے ۔ ۔۔اور نصف وقت سویلینز کو ملا
یہ کون سا پاکستان ہے ۔۔ ۔ قائد کی آنکھوں میں آنسو جھلمانے لگے ۔۔ ۔ ۔ یعنی آپ نے پچھلے ستر سالوں میں یہ فیصلہ نہیں کیا کہ ہمارے ہاں کیسی حکومت ہونی چاہیے
سر ہم نے اپنا آئین بنایا ہے ، جو تہتر میں نافذ ہوا
کیا ، تم لوگوں کو آئین بنانے میں تیس سال لگے ؟ کیا تمیں میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہمارا آئیں تو تیرہ سو سال پہلے سے ہمیں دے دیا گیا ہے ؟ کیا تم لوگ اسرائیل سے بھی سبق نہیں لے سکے جس نے پہلے دن سے اپنا آئیں اپنی مقدس کتاب کو بنا دیا ایک لائن کا آئین ۔ ۔ ۔ قائد کی آواز میں غصہ تھا ۔ ۔ ۔
سس سس ۔ ۔ ۔ سر ۔ ۔ ۔ ہم ابھی تک یہ بھی فیصلہ نہیں کر سکے کہ پاکستان کا اسلام سے کوئی رشتہ ہے کہ نہیں ہے ۔ ۔ ۔ تو مذہبی کتاب ۔ ۔ ۔کا حوالہ کیسے دیتے ، اسی کشمکش میں یہ سب کچھ ہو گیا ، اور تہتر کا آئین بھی مختلف حکومتوں میں بدلتا رہا
ہاں ۔ ۔۔ تو انسان کا بنایا ہوا قانون تو بدلتا رہتا ہے ، خدا کا قانون نہیں بدلتا ۔ ۔ ۔ اور پاکستان اور اسلام کا رشتہ کیا تمہیں میں نے نہیں بتایا تھا ؟ کہ پاکستان تو اسی دن بن گیا تھا جب ہندوستان کا پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا ۔ ۔
جج جی سس سس سر ۔ ۔ ۔ پروفیسر صاحب قائد کی کڑک دار آواز سے پسینے پسینے ہو گئے تھے
اچھا بتاؤ آگے کیا ہوا ، میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنا غلط سمجھا جائے گا مجھے اور قیام پاکستان کو
شہید ملت کے قتل پر ۔ ۔ ۔
شہید ملت کون ؟
لیاقت علی خان صاحب ۔۔۔ انہیں یہ خطاب انکے قتل کے بعد دیا گیا
ہممم ۔۔ ۔ اور مجھے کیا خطاب دیا گیا ،میری موت کے بعد ۔ ۔۔
جج ، ۔جی آپ کو ہم بابائے قوم کہتے ہیں ۔ ۔۔ اور سمجھتے ہیں یعنی فادر آف نیشن ۔۔ ۔
یہ خطاب کب دیا گیا مجھے ؟
جج جی آپ کو آپ کی زندگی میں ہی بابائے قوم کہا جانے لگا تھا جیسے قائد اعظم کا خطاب بھی تھا ۔۔ ۔
ہاں میں جانتا ہوں ۔ مگریہ نہیں جانتا تھا کہ قوم مجھے باپ تو مان لے گی مگر نافرمان ہو جائے گی ، میری اپنی اولاد کی طرح ، قائد کی آواز رُندھ گئی تھی
سس سس سر آپ کی صاحبزادی ابھی تک زندہ ہیں مگر بھارت میں رہتی ہیں
ہاں ۔۔ ۔ وہ تو اسی وقت ادھر چلی گئی تھی ، میرا اس سے کوئی رشتہ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ کہ اس نے مجھے بہت تکلیف پہنچائی ۔۔ ۔ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔ ۔
ہال میں خاموشی چھا گئی ، جیسے کسی کے پاس کچھ کہنے کے لیے نہ رہا ہو!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ دیر خاموشی کے بعد ، قائد نے خود خاموشی کو توڑا
آپ آگے بتائیں ، لیاقت کے بعد کیا ہوا؟
لیاقت علی خان نے اپنے تین سال میں بہت کچھ کیا تھا خاص کر انکا پنڈت نہرو کے ساتھ اقلیتوں کی حفاظت کا معاہدہ بھی کیا گیا تھا ، جس کی وجہ سے کافی حالات بہتر ہوئے تھے مگر یہ صورت حال بھارت میں زیادہ عرصے تک نہیں چلی
کیا گاندھی نے کچھ نہیں سمجھایا
سر گاندھی جی کا تو آپ کی وفات سے پہلے ہی قتل کر دئیے گئے تھے
کیا مطلب ، قائد ایک بار پھر اضطرابی طور پر کھڑے ہو گئے ، گاندھی کو بھی قتل کر دیا گیا ۔ ۔۔ اوہ ۔ ۔مائی گاڈ ۔ ۔ ۔ پھر ان دونوں ملکوں میں تو قتل کا رواج نکل پڑا ہو گا
جی سر ، دونوں ملکوں میں کئی حکومتی لوگ قتل کئے گئے ، قائد ملت لیاقت علی خان کے قتل کے بعد پاکستان میں محلاتی سازشیں زور پکڑنے لگیں جس میں جنرل اکبر کا سول حکومت پر قبضے کا پلان بھی تھا ، مگر ناکام ہوا
مگر سات سال تک سیاستدانوں نے آپس کی چپقلش میں پاکستان کو چیئرز کا گیم بنا دیا ۔۔ ۔ اور اسکے نتیجے میں جنرل اعظم نے ١٩٥٨ میں پہلا مارشل لگا دیا ، جو کہ جنرل ایوب کے گیارہ سال کی فوجی حکومت کا آغاز ثابت ہوا
ہاں جب سیاست دان ناکام ہوتے ہیں تو آمریت کامیاب ہو جاتی ہے ، قائد کے لہجے میں دُکھ صاف محسوس کیا گیا
جنرل ایوب کے زمانے میں پاکستان نے انڈسٹریز میں ترقی کی اور نئی نئی صنعتیں وجود میں آئیں جسکے لیے پاکستان نے امریکہ سے بہت مدد لی ، پاکستان میں بجلی کے بڑے منصوبے بنے اور جنرل ایوب کے زمانے میں ہی دارلحکومت کو کراچی سے منتقل کر کہ اسلام آباد لایا گیا ، اسلام آباد ایک نیا شہر بنایا گیا ۔۔ ۔ جہاں ابھی آپ موجود ہیں
اوہ تو کیا گیارہ سال تک دنیا نے پاکستان کو برداشت کیا ملڑی حکومت کو؟
سر جنرل ایوب نے اپنی زیر نگرانی ایک پارٹی بنائی جس میں حکومت پرست سیاست دانوں کو اکھٹا کیا گیا اور الیکشن کروائے گئے ، محترمہ فاطمہ جناح انکے مقابل تھیں مگر وہ انتخاب ہار گئیں
کیا ؟ میں اتنی ان پاپولر تھی کہ انتخاب ہار گئی ۔ ۔ ۔محترمہ فاطمہ جناح کے لہجے میں حیرت تھی
جی نہیں ، آپ غیر مقبول نہیں تھیں ، مگر حکومتی مشنری نے آپ کو ہرا دیا ، جس پر رد عمل کے ڈر سے آپ کو قید کر لیا گیا اور پھر آپ پراسرار حالات میں موت کا شکار ہو گئیں
کیا مطلب ، مجھے بھی قتل کر دیا گیا ۔ ۔۔ ۔ فاطمہ جناح کی آواز میں خوف نمایاں تھا
اس کا بھی کوئی جواب نہیں ہے میڈم ۔ ۔۔ قوم آپ کو مادر ملت کہتی ہے ، مگر آپ کیسے ہاریں یہ کوئی بھی نہیں جانتا ، اور اسی قوم نے آپ کی بہت تضحیک بھی کی ۔ ۔۔
کیا مطلب ۔ ۔ ۔ قائد اور فاطمہ جناح کے دونوں کے منہ سے نکلا
میرے خیال میں پروفیسر صاحب تفصیلات میں نہ جائیں ہمارے پاس کم وقت ہے ، چیف نے پہلی بار بولا
ہاں آپ تو اپنے جنرلز کو بچاتے آئے ہیں نا ابھی تک ۔ ۔ ۔ وزیراعظم نے زہر سے بجھے لہجے میں کہا
میرے خیال میں یہ لڑنے کا مناسب وقت ننہیں ۔ ۔ ۔ پلیز ۔ ۔ ۔ صدر صاحب نے چیف کی طرف التجائی نظروں سے دیکھا
ہاں زیادہ بحث کا وقت نہیں کہ صحیح ہوا یا غلط ، مجھے صرف یہ جاننا ہے کہ کیا ہوا ، ہمارے پاس اب نو گھنٹے ہیں باقی ، قائد نے بے زار لہجے میں کہا، پروفیسر کنٹینیو پلیز
جج جج جی سر ، ١٩٦٢ میں چین اور بھارت کی جنگ سے چین پاکستان کے بہت قریب آ گیا ، اور بھارت میں پاکستان کے خلاف نفرت بڑھی کہ پاکستان نے کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے بہت سے قبائلیوں کو مقبوضہ کشمیر میں داخل کرنا شروع کیا ، جو ١٩٦٥ کی جنگ کا باعث بنا، یہ جنگ ہم نے جیتی یا ہاری اس کا کچھ نہیں کہا جا سکتا ، مگر یہ ضرور ہوا کہ ١٩٤٧ کی طرح بھارت نے اقوام متحدہ کا سہارا لے کر جنگ رکوا دی
تو کیا کشمیر آزاد ہوا ؟
نہیں محترم قائد ، ہم نے شملہ معاہدہ کر لیا ، جس میں بھارت نے حق خود ارادیت مان تو لیا مگر آج تک اس پر عمل نہ ہو سکا
کیوں ؟
شاید ہمارے حکمران پاکستان کو کبھی اتنا طاقتور نہیں کر سکے کہ ہم دشمن کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کر سکتے
پھر ١٩٧٠ میں پاکستان میں تاریخ کے سب سے زیادہ شفاف انتخابات ہوئے اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی
یہ کوئی نئی پارٹیاں تھیں اور مسلم لیگ کہاں گئی ؟ قائد نے پوچھا
جی سر عوامی لیگ شیخ مجیب الرحمٰن کی پارٹی تھی اور پیپلز پارٹی ذولفقار علی بھٹو کی ، مسلم لیگ چونکہ سابقہ ڈکٹیٹر ایوب خان کی پروردہ تھی اس لیے اسے بُری طرح شکست ہوئی
اس الیکشن کے بعد بھٹو اور شیخ مجیب کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوئی جسکے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں جہاں بنگالی زبان کی تحریک کی وجہ سے پہلے ہی ٹنشن تھی اور بڑھ گئی ،اور بھارت نے بھی اس کا فائدہ اٹھایا اور اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کردیں اور وہاں خانہ جنگی شروع ہو گئی ، جسکو کچلنے نے کے پاک فوج نے ایکشن کیا جو فسادات میں بدل گیا اور مشرقی پاکستان نے علیحدگی کا اعلان کر دیا اور شیخ مجیب نے بنگلہ دیش کا اعلان کر دیا ، پاکستان کو فوجی محاذ پر بھی شکست ہوئی اور ہزاروں فوجی بھارت کے قیدی بن گئے اور مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا ۔ ۔۔ اسی علیحدگی پر بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا کہ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے
اندرا گاندھی ، نہرو کی بیٹی ؟
جی سر وہ بھارت کی مقبول وزیر اعظم رہی ہیں انہیں بھی انکے محافظوں نے قتل کر دیا تھا کہ انہوں نے سکھوں کے مقدس گولڈن ٹمپل پر خون کی ہولی کھیلی تھی
مجھے اندرا کا پتا ہے وہ انتہائی عیاش اور بے حیا لڑکی تھی ، دونوں باپ بیٹی نے ہر جائز ناجائز طریقے سے ہندوستان کی تقسیم کو روکنا چاہا اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا، قائد نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہا
سر آپ کا گاندھی جی کے بارے میں کیا نظریہ ہے
گاندھی ایک بہروپیا تھا ، وہ ہندوستان کی تقسیم نہیں چاہتا تھا ، میں بھی نہیں چاہتا تھا ،مگر نہرو ، ولا بھائی پٹیل جیسے لوگوں نے گاندھی کو گھیر لیا تھا اور پھر گاندھی مجبور ہو گیا ، مگر گاندھی چاہتا تو فسادات کو روک سکتا تھا ، مگر اس نے ایسا نہیں کیا اور اس کو اسی کی منافقت لے ڈوبی ، مجھے یوں لگتا ہے جیسا کہ پاکستان ٹوٹنے کا سبب میرا اردو زبان کے بارے میں بیان تھا جو بنگالیوں کو سمجھ نہیں آیا
جی سر ، کچھ ایسا ہی ہوا ، بہت سے لوگ آپ کے بیان کو ہی اس سقوط ڈھاکہ کا سبب سمجھتے ہیں
خیر آگے چلیں ، اور ذرا تیز چلیں ، کہ وقت بہت کم ہے
سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی ، جو پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ذولفقار علی بھٹو کی سربراہی میں پاکستان کوبدلنے کے لیے تیار ہوئے ، اور روٹی کپڑا مکان کا نعرہ دیا
گریٹ ، روٹی کپڑا مکان ، انٹرسٹنگ ۔ ۔۔ یہ تو بنیادی ضرورت ہے ہر انسان کی
جی سر ، اسی کو بنیاد بنا کر پاکستانی عوام کو بھٹو عوامی لیڈر بنایا گیا ، مگر بھٹو اچھی اور بُری باتوں کا مجموعہ تھے ، بھٹو نے معاشی ، سیاسی ، مذہبی اصلاحات کے نام پر بہت کچھ بدل ڈالا ، بھٹو نے پاکستان کو پہلا متفقہ آئین دیا ، پاکستان کو عالم اسلام میں اہم مقام دلوایا ، اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی ، جو کہ بھارت کے ایٹمی دھماکے کا جواب تھی
کیا مطلب پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کیے ؟
جی سر پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے مگر بہت سالوں کے بعد ، پاکستان اب دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت ہے
ایٹمی طاقت ؟ کیا تباہی کے ہتھیار رکھنے سے ملک طاقت بن جاتے ہیں یا ظآلم ؟ امریکہ کی مثال ہمارے سامنے ہے ، جس نے جاپان کو برباد کر کہ رکھ دیا
سر ہم نے اپنے دفاع کے لیے ایٹمی طاقت کا انتخاب کیا ، ہمیں مجبور کیا گیا ، اسی لیے تو بھٹو نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے
تو اب یقینا گھاس کھا رہے ہو گے تم لوگ ۔ ۔ ۔ ۔ قائد نے زہر خند لہجے میں کہا
سس سسر آپ کسی حد تک ٹھیک ہیں ہمارے ملک میں ابھی تک غربت پر قابو نہیں پایا جاسکا ، ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود معاشی طور پر خود کفیل نہیں ہیں ، ہماری معیشت کا بوجھ غیر ملکی قرضے ہیں
کیا ، غیر ملی قرضے ؟ کیا پاکستان میں وسائل ختم ہو گئے ہیں ،یہاں کس چیز کی کمی ہے ، ٹھیک ہے مشرقی پاکستان الگ ہو گیا ، مگر مغربی پاکستان ایک زرعی علاقہ ہے ، پنجاب اور سندھ کی دھرتی ہے ، بلوچستان کی معدنیات اور سرحد کی محنت کش عوام ہے ، کیا کمی ہے ہم میں کہ ہم مقروض ہو گئے ہیں
سس سر ، سرحد کو اب خیبر پختون خواہ کہا جاتا ہے ، اور آپکی بات ٹھیک ہے پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں مگر مسائل کی بھی کمی نہیں ہے ، ہمیں کوئی ایسا لیڈر نہیں ملا جو ہمیں متحد رکھ سکتا سب لوگ کرپٹ ملے ہیں ، جنہوں نے خود کو تو امیر کر لیا مگر اس ملک کو غریب کر دیا ۔ ۔ ۔ پروفیسر صاحب نے کن اکھیوں سے وزیر اعظم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ، وزیر اعظم نے کچھ بولنا چاہا مگر کسمکسا کر رہ گئے
بھٹو کے دور میں پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی ، جس نے پاکستان کی عالم اسلام میں اہمیت کو اجاگر کیا ، بھٹو کے زمانے میں قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا ، بھٹو کے زمانے میں ہی شراب پر پابندی لگائی گئی اور بھٹو کے زمانے میں ہی پاکستان میں پاکستان میں معاشی اصلاحات کی گئیں جنکا اثر کچھ مثبت اور کچھ منفی ہوا بھٹو کے زمانے میں ہی پہلی بار بلوچستان میں خانہ جنگی کی کوشش کی گئی ۔ ۔ ۔ جو آج تک جاری ہے
انٹرسٹنگ ۔ ۔ ۔ یہ بھٹو تو کافی ملٹی ٹیلنٹڈ لگتا ہے ، جس نے ہر اس چیز پر ہاتھ ڈالا ، جو کسی بھی ملک کو آباد یا برباد کر سکتی ہے، قائد نے سپاٹ لہجے میں کہا
جی ہاں ، اسی لیے بھٹو آج بھی ایک مثال ہے ، مگر بھٹو کا انجام اچھا نہیں ہوا
اوہ ، کیا اسے بھی قتل کیا گیا ؟
نہیں سر ، مگر قتل بھی کہ سکتے ہیں ، ١٩٧٧ میں تاریخ کے متنازع ترین انتخابات ہوئے ، جس کے نتیجے میں پاکستان میں دوسرا مارشل لا جنرل ضیا کے ہاتھوں لگا ، جس نے پاکستان کو مزید اندھیروں میں دھکیل دیا، اور بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا
اوہ ۔ ۔۔ وہ کیوں ؟
ان پر ایک قتل کا مقدمہ تھا ، عدالت نے موت کی سزا دی ، جو آج تک ایک متنازع فیصلہ جانا جاتا ہے اور اسکا الزام ضیاالحق پر رکھا جاتا ہے
ہممم۔۔۔۔ ضیا کے مارشل لا نے کیا کیا ؟ کہا پہلے مارشل لا کی طرح تھا یا مختلف تھا
بہت مختلف تھا سر ، ضیا کی قسمت بہت اچھی تھی ، اسکے مارشل لا کے بعد ہی روس نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور گرم پانی تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگا ، امریکہ اس جنگ میں آ گیا اور پاکستان کو مہرہ بنا لیا ، پاکستان نے امرکہ کا بھرپور ساتھ دیا مگر ساتھ ہی اپنی سرزمین کو افغانوں سے بھر دیا ، اور پاکستان میں منشیات اور دھشت گردی کا سیلاب آ گیا جو آج تک ہمارے وطن کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے
اوہ۔ ۔ ۔۔ یعنی ہم لیاقت کے زمانے سے ہی امریکہ کے طفیلیے رہے ، اور وہ ہزروں میل دور سے ہمیں کنٹرول کرتا رہا ہے ، امریکی ہمیشہ سے دنیا پر قبضے کی کوشش میں رہے ، اور جنگیں لڑتے رہے مگر ہزراروں میل دور سے
جی سر ایسا ہی ہے ، امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت جنگیں لڑیں ہیں اور ساری کی ساری امریکہ سے ہزاروں میل دور لڑی ہیں ، اور پراکسی جنگیں تو بہت سی لڑ رہا ہے
کون سی جنگیں لڑیں ؟
سر ویت نام کے ساتھ ایک طویل جنگ کی ، پھر افغانستان ، پھر عراق ، لبیا ، یوگوسلاویہ ، بالٹک ریاستوں اور ابھی یمن اور شام میں بھی امریکہ جنگ لڑ رہا ہے
کیا امریکہ کا کیوبا اور میکسیکو کے درمیان تنازعات ختم ہو گئے ہیں ؟
جی نہیں سر ، مگر امریکہ نے کبھی غیر مسلموں کے ساتھ تباہی والی جنگ نہیں کی ، حتیٰ کہ وہ شمالی کوریا کی دھمکیوں کو بھی نظر انداز کر رہا ہے اور بھارت کے کشمیر کے ظلم کو بھی
ہاں ایسا ہی ہے ، پاکستان کو اسلامی دنیا کی رہبری کے لیے بنایا گیا تھا مگر تمہاری باتیں سُن کر مجھے لگتا ہے کہ پاکستان خود غیر مسلموں کے تابع ہو چکا ہے
افسوس کے ساتھ مجھے اعتراف ہے سر ایسا ہی ہے ، بہرحال ، پاکستان کو افغآن جنگ نے دھشت گردی کی طرف دھکیل دیا ، روس ٹؤٹ گیا اور امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا ، اور اس نے پاکستان کو اکیلا چھوڑ دیا
ایک اسلامی ملک کو غیروں پر اتنا اعتماد کرنا ہی نہیں چاہیے ،ہمیں ہمارا قرآن بہت کچھ بتاتا ہے کہ دنیا میں کیسے رہنا ہے
سر ہم اب ہر معاملے میں مذہب کی مدد نہیں لیتے ، بلکہ اپنے فہم سے فیصلے کرتے ہیں
واہ ۔ ۔ ۔ کمال ہے ۔ ۔ پھر پاکستان بنانے کا مقصد ہی فوت ہو گیا ، فاطمہ جناح نے طنزیہ لہجے میں کہا اور قائد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ، بھائی ، یہ پاکستان وہ نہیں جس کو آپ نے بنایا تھا ، شاید ہم غلط جگہ آ گئے ہیں
مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے فاطی ، قائد نے تشویش ناک لہجے میں کہا ، میں نے پاکستان کو اسلامی نظریات کی جدید مملکت بنایا تھا ، اگر مغربی جمہوریت ہی یہاں چلانی ہوتی تو ہندوستان کی تقسیم کی کیا ضرورت تھی ، ڈاکٹر اقبال نے تو ١٩٣٠ میں ریاستی خود مختاری کا نظریہ پیش کیا تھا ، ہم امریکہ روس یوگوسلاویہ کی طرح ریاستی خود مختاری کے ساتھ رہ سکتے تھے ، کیا ہم ہزار سال اکھٹے نہیں رہے ؟ مجھے تو لگتا ہے میرا ویژن ہی بدل ڈالا گیا ہے اس پاکستان میں
سر ہم آج تک اسی بحث میں اُلجھے ہوئے ہیں کہ آپ کیسا پاکستان چاہتے تھے ؟ اسلامی یا سیکولر، اگر ہم ہزار سال اکھٹے رہے تھے تو پھر الگ ملک کی کیا ضرورت تھی ؟
میرے خیال میں میں اسکا جواب دے چکا ہوں ، اصل میں انگریزوں نے ١٨٥٧ کی جنگ آزادی میں ہی ہندو اور مسلمانوں کو الگ الگ کر دیا تھا ، انگریزوں نے مسلمانوں کی سلطنت ختم کی تھی ، ہندوؤں نے اس خاتمے کے لیے انگریز کو خوش آمدید کہا ، اسکا آغاز انڈین کانگریس کے قیام سے شروع ہوا جس کا بانی ایک انگریز تھا ، اور اسے ہندوستان کی سیاسی جماعت بنایا گیا مگر اصل میں وہ ہندو جماعت تھی ، اسی طرح مسلم لیگ بھی تھی جو مسلمانوں کی جماعت تھی ، میں نے بھی بہت کوشش کی کہ ہندو مسلم اتحاد بنا رہے مگر کانگریس نے یہ ہونے نہ دیا اور ہندوستان کو ہندو مملکت بنانے کی کوشش کی ، جس کی وجہ سے پاکستان کا قیام ممکن ہوا ، اور پھر ہندو نے ہی پہلے مسلمانوں کو الگ قوم قرار دیا جبکہ ہندوستانی مسلمان اسی دھرتی کا حصہ ہیں ، باہر سے آئے ہوئے عرب فاتحین ہوں یا مغل یا افغانی وہ آئے اور ختم ہو گئے ، کیا مغل اسی سرزمین کا حصہ نہیں بنے ؟ کیا اکبر نے وہ نہیں کیا جو آپ بتا رہے ہو آج کے پاکستان میں ہو رہا ہے ؟
سر آپ نے بھی تو غیر مسلموں کو اپنی کابینہ میں رکھا جس کی وجہ سے ہمیں یہ کنفیوژن ہے کہ پاکستان خالص اسلامی مملکت نہیں بلکہ سیکولر ری پبلک ہے
واٹ ۔۔۔۔۔؟ کیا اکبر کے سارے نورتن مسلمان تھے ؟ کیا ٹیپوسلطان کی سلطنت کے وزیر ہندو نہیں تھے ؟ کیا عباسی ، سلجوق ، سلاطین دلی کے حکمرانوں کے دربار میں صرف مسلمان ہی تھے ؟ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنی غیر مسلم رعایا کو اپنے درباروں میں نمائندگی دی ، مسلمان اگر اقلیت میں رہے تو روس کی لامذہبی ریاست میں بھی اپنا آپ قائم رکھا ہے ، امریکہ یورپ میں پہچان رکھی ہے ، ہم نے ہسپانیہ کو کھویا تو ہم نے یورپ تا کاشغر مسلمانوں کی حکومتیں قائم کیں ، تو پاکستان کے بارے میں کیوں پوچھا جا رہا ہے کہ وہ اسلام سے متعلق ہو گا کہ نہیں ؟ مجھے آپ کے سوالوں پر حیرت ہے ، شاید میں اپنا پیغام صحیح نہیں پہنچا سکا ، مجھے اسکا دُکھ ہے ، قائد کی آواز میں لرزش تھی ، کیا مجھے ریڈیو پر پاکستان کی قوم کو میرے پیغام کی تشریح کا موقع دیا جائے گا ؟
سر ۔ ۔ ۔ آپ کی یہ سب باتیں پاکستانیوں اور باقی دنیا تک پہنچ رہی ہیں ؟
وہ کیسے ؟
سر یہ سب کچھ براہ راست نشر کیا جا رہا ہے ، ٹی وی پر اور سٹیلائٹ پر ، ساری دنیا یہ سب دیکھ رہی ہے
اوہ ، اچھا ۔ ۔۔ یعنی میں پاکستانیوں سے براہ راست بات کر سکتا ہوں ؟
جی ہاں سر ،
تو میں انگلش میں ہی بات کروں گا ، کیونکہ میں زیادہ واضح کر سکوں گا دینا کو
سر کوئی بات نہیں ، ہمارے ہاں اب ایسی ٹیکنالوجی ہے ، کہ آپ کی اس ساری بات کو ہر کوئی اپنی اپنی زبان میں سُن سکتا ہے
محترم قائد ، ہم نے آپ کا ایک خطاب رکھا ہے اس بریفنگ کے بعد، ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنے تاثرات قوم کے سامنے بیان کریں ، وزیر اعظم نے موءدب لہجے میں کہا
ٹھیک ہے ، پروفیسر پھر کیا ہوا ، ضیا کے دور کا اختتام کیسے ہوا
سر ، صدر ضیا کا طیارہ تباہ ہو گیا ، اور وہ اور نکے بہت سے ساتھی مارے گئے
اوہ میرے خدایا ، کیا ہمارے ہاں حکمران مارے ہی جاتے رہے ؟
بدقسمتی سے ایسا ہی ہے محترم قائد ، ضیا کے بعد پھر سے جمہوری میوزیکل چئیر شو شروع ہوا ، ایک حکومت آتی ،گرا دی جاتی ، ہم نے ضیا کے بعد دس سالوں میں آٹھ جمہوری حکومت کو دیکھا اور پھر ١٩٩٨ میں جنرل مشرف نے تیسرا مارشل لا لگا دیا
اوہ ، یعنی پھر فوجی حکومت ۔ ۔ ۔
جی سر، اور یہ حکومت بھی گیارہ سال رہی ۔۔ ۔
یا خدا ، میں نے پاکستان کو ایسا تو نہیں بنانا چاہا تھا جہاں لوگ اقتدار کی رسہ کشی کرتے رہیں ، پھر تو عوام کے لیے کیا کیا ہو گا ان اقتدار کے حواریوں نے ؟ میں نے تو بار بار کہا کہ حاکم عوام کے خادم ہوتے ہیں ، اور تمہاری باتوں سے لگتا ہے کہ قوم بکھر گئی ، ان میں ایمان نہیں رہا اور سب الگ الگ ہو گئے
جی سر کچھ ایسا ہی ہوا ہے ، ہم نے آپ کے فرمودات بھلا دیے ، اب ہم میں نہ اتحاد ہے نہ تنظیم ہے اور نہ ہی ایمان ہے ۔۔ ۔
تو پھر قوم نہ رہی نا ، ریوڑ ہوا انسانوں کا ، قائد کی آنکھوں میں موتی جھلمانے لگے
کمرے میں ایک بار پھر سکوت طاری ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر نئی فوجی حکومت نے کیا تیر مارا ، محترمہ فاطمہ جناح کے لہجے میں طنز تھا
تیر کیا مارنا تھا ، ہماری رہی سہی ساکھ بھی مٹی میں ملا دی گئی ، امریکہ میں دو جہاز دو بڑی بلڈنگ سے کیا ٹکرائے کہ امریکہ کو مسلمان دُنیا کو کھنڈر بنانے کا ٹھیکہ مل گیا ، مسلمانوں کی کمزوریوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ، امریکہ نے غداروں پر ڈالروں کی بارش کر دی ، تو ہم کیوں پیچھے رہتے ۔ ۔ ۔ ہم نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ، یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ جب بھی پاکستان میں فوجی حکومت آئی دنیا میں کچھ ایسا ضرور ہوا جس کی وجہ سے مغرب کو پاکستان کی ضرورت پڑی اور پاکستانی حکمرانوں نے اس کا بھرپور فائدہ اُٹھایا ، اسی کی وجہ سے آج ہمارے جتنے بھی حکمران ہیں انکے بچے امریکہ اور مغرب میں بہت آسان زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہمارے حکمران دن بہ دن امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور عوام غریب تر
پروفیسر صاحب ، سیاست کی باتیں نہ کریں ، یہ درست نہیں ہے ، وزیر اعظم نے زہر خند لہجے میں کہا
یہ سیاست نہں حقیقت ہے سر ، پروفیسر صاحب نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا
یاد رکھیے قائد تو کچھ گھنٹوں کے لیے ادھر ہیں ، آپ کو جواب دہی کرنا پڑے گی ان الفاظ کی ۔ ۔۔ صدر صاحب بھی وزیر اعظم کے لہجے میں بولے
دیکھ لیجیے قائد ، آپ نے ہمیں یہ کہا تھا کہ حکمران خادم ہوتے ہیں عوام کے ۔۔ ۔ یہ ۔۔ ۔
میں کیا دیکھوں اور کیا کہوں ۔ پی ایم صاحب نے سچ کہا کہ ۔ ۔ ۔ سیاست حقیقت نہیں ہوتی ، مگر حقیقت پر سیاست نہیں کی جا سکتی ، میری جیب میں کھوٹے سکے تھے ۔ ۔۔ مگر یہ ہی کھوٹے سکے عالمی طاقتوں کے لیے چمکتی اشرفیاں بن گئے ، خیر پھر کیا ہوا اگلے دس سالوں میں ۔۔ ۔
ہونا کیا قائد ، ہر آمر کی طرح ، فوجی حکومت میں جمہوریت کا تڑکا لگایا گیا اور موقعہ پرست سیاست دان فوجی حکومت کا حصہ بن گئے اور کہا کہ ہم فوجی حکمران کو وردی میں ہزار بار جتوائیں گے ۔ ۔ ۔اور ایسا ہی ہوا ، اور ملک کے دو بڑے لیڈران جو جلا وطن تھے واپس آئے ، پیپلز پارٹی کی بے نظیر بھٹو جو ذولفقار کی بیٹی تھیں اور مسلم لیگ کے نواز شریف ۔ ۔ ۔ دونوں نے دھشت گردی کی لہر کے باوجود عوامی مہم شروع کی ، اور اسی دوران بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا
کیا ۔ ۔۔ ۔ قائد اور انکے ساتھی ایک ساتھ چلا اُٹھے ،۔۔۔۔ پھر قتل ۔۔ ۔ اوہ میرے خُدایا ۔۔ ۔ پاکستان ۔۔ ۔ ہے یا کوئی مقتل گاہ ۔ ۔ ۔۔
جی یہ تو بڑے لوگ تھے جو قتل ہوئے ،مگر پچھلے بیس سالوں میں دھشت گردی سے اسی ہزار سے زیادہ پاکستانیوں نے جان گنوائی ہے ، ایک وقت تھا کہ ہمارے ہاں روز خودکش دھماکے ہوتے تھے، عوام آج تک حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا خمیزہ بھگت رہے ہیں
ہاں جب حاکم ۔۔ ۔ عوام سے الگ ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے ،
پھر سر انتخابات ہوئے پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی ، تو عوام کے لیے انہوں کیا کرنا تھا ، عدالتوں میں اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے مقدمے ہی لڑتے رہے ، اور پھر یہ ہی حال آج کی حکومت کا ہے ۔۔ ۔ ۔
بس ختم ؟۔۔ ۔ ۔ ۔ قائد نے بے زار لہجے میں پوچھا
جی سر ، اب اگر کچھ آپ پوچھنا چاہتے ہیں تو میں حاضر ہوں
یہ بتاؤ اقوام عالم میں ہمارا کیا مقام ہے
قائد میں آپ سے سیاسی بات نہٰں کروں گا گو مجھے اپنا انجام معلوم ہو چکا ہے ، ہمارا مقام ایک ٹشو پیپر جیسا ہے
ٹشو پیپر ؟ مطلب ؟
جب دُنیا کو ہماری ضرورت ہوتی ہے تو ہمیں سر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں ، جب ضرورت ختم ہوتی ہے تو ہمیں فضول کہ کر ڈسٹ بن کی نظر کر دیتے ہیں اور یہ چکر پاکستان کے ساتھ شروع سے ہی چل رہا ہے
ہماری معیشت کیسی ہے
ہماری معیشت ایک طفیلی معیشت بن چکی ہے ، ملک میں کارخانے بند ہو رہے ہیں ، ہمارا ہر فرد ایک لاکھ سے اوپر کا مقروض ہے ، پہلے امریکہ ، پھر روس اور اب چین کا انفلوئنز بڑھ رہا ہے ، ہم اس پر خوشیاں مناتے ہیں کہ کوئی باہر سے آ کر ہمارے کام کر دے ، خود اپنا کام کرتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے
پروفیسر صاحب ، آپ اس سچوئشن کا بہت فائدہ اُٹھا رہے ہیں ، پی ایم ۔ ۔۔ کا لہجہ بےبسی سے بھرپور ہے
کیا پاکستان میں کچھ بھی مثبت نہیں ہوا ان ستر برسوں میں
ہوا ، بلکل ہوا ، ہم ایٹمی طاقت بنے
کیا ایٹمی طاقت بننے سے عوام کی زندگی پر کوئی فرق آیا
جی بہت فرق آیا ، ہم براہ راست جنگ سے محفوظ ہوئے تو پراکسی وارز کی زد میں آ گئے
دوسری ترقی ہمارا میڈیا ہے ، جو بہت ہی آزاد ہو چکا ہے
آزاد میڈیا ضروری ہے ۔۔ ۔ مگر ذمہ دار میڈیا ہونا چاہیے ۔ ۔۔
سر ہم ذمہ داری نہیں لیتے بلکہ اپنے ذمہ بھی جو ہوتا ہے وہ دوسروں کے ذمہ کر دیتے ہیں
یعنی تم لوگ بھی چینی بن گئے ہو ؟
چیینی ؟ نہیں سر چینی بہت محنتی قوم ہے ، آج چین نے بنا لڑے ساری دنیا میں اپنا لوہا منوا لیا ہے ، آج چین دنیا کے ہر کونے میں کسی نہ کسی صورت موجود ہے
چینی اور محنتی ؟ یہ تو افیون زدہ قوم ہے ، قائد نے حیرت سے پوچھا
سر تھی ، اب نہیں ۔ ۔ ۔ ہماری یہ ہی بدقسمتی رہی کہ ہمارے بعد بننے والے ممالک بھی ہم سے آگے ہیں ۔ ۔ ۔
میرے خیال میں یہ کبھی نہ ختم ہونے والی بحث ہے ، وزیر اعظم نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا اور ویسے بھی قائد کے پاس وقت کم ہے ، اس بریفنگ کو اب ختم کردینا چاہیے
ہاں ۔ ۔ ۔ میرے اندر بھی اب ہمت نہیں کہ اتنا سب کچھ سہ سکوں ۔ ۔ ۔ خدا کی پناہ ۔ ۔ ستر سالوں میں ہم یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہمارے قیام کا مقصد کیا تھا ، قائد کا لہجہ دکھیا تھا
سر آپ کے لیے ایک ضیافت کا اہتمام کیا گیا ہے ، جس میں اراکین اسمبلی اور ملک کی نامور شخصیات شامل ہونگی ، صدر نے قائد سے کہا
نہیں ۔ ۔ ۔ مجھے ناموروں سے نہیں ۔ ۔ ۔ عوام سے ملنا ہے ، ناموروں کے کارنامے تو میں اب سُن چکا ہوں
سر آپ عوام میں نہیں جا سکتے
کیوں ؟
سر دھشت گردی کی وجہ سے کوئی بھی وی آئی پی عوام میں نہیں جانا چاہتا
کیا موت کے ڈر سے ؟
جی سر ۔ ۔۔ آپ کو بتایا جا چکا ہے کہ ہمارے کتنے ہی لیڈر قتل ہوئے ہیں ۔۔ ۔
مرے ہوؤں کو کیا مارنا ، ہم تو بہت پہلے مر چکے ہیں ، اور دشمن میرے بھی تھے ۔ ۔۔ مگر عوام میرے ساتھ تھے ، مجھے کبھی بھی عوام میں جا کر خوف نہیں رہا بلکہ مجھے وہ میرے محافظ لگے اور انہیں میں انکا محافظ لگا
قائد اُٹھ کھڑے ہوئے ، مجھے عوام سے ملنا ہے ، اگر تم لوگ نہیں ملاؤ گے تو میں خود باہر جاؤں گا ۔ ۔ ۔ قائد کے مضبوط لہجے میں سختی تھی
آرمی چیف نے کہا ، قائد آپ میرے ساتھ چلیں ، میں آپ کو عوام سے ملواتا ہوں ÷ ÷ ÷ ÷
اور قائد انکے ساتھی آرمی چیف کے ہمراہ ہال سے نکل گئے
صدر اور وزیراعظم ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عصر کا وقت تھا ، قائد کو فیصل مسجد ہیلی کاپٹر سے لایا گیا ، قائد کو لینڈ مارکس کے بارے میں بتایا گیا جو واضح نظر آ رہے تھے ، پاکستان مانومنٹ ، سنچورس مال ، فیصل مسجد ، ائیرپورٹ ۔ ۔ انکے ساتھ صدر اور وزیر اعظم کو بھی آنا پڑا ، میڈیا سب کچھ براہ راست دکھا رہا تھا ، عوام کا جم غفیر قائد کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار تھا ، عصر کے وقت ایسا اجتماع شاید ہی کسی نے دیکھا ہو گا ، قائد کو امام صاحب نے خوش آمدید کہا اور عصر کی نماز ادا کی گئی ، نماز کے بعد ہجوم بے قابو ہو گیا تھا ، قائد کو کہا گیا کہ وہ خطاب کریں ، مگر قائد نے مسجد میں خطاب سے منع کر دیا اور قائد کو مسجد سے باہر لایا گیا ، جہاں صحافیوں نے قائد کو گھیر لیا ، فیصلہ ہوا کہ ایک فوجی ٹرک پر سے قائد کا خطاب ہو گا اور اسکے بعد ایک پریس کانفرنس ہو گی
فوجی ٹرک کو چاروں طرف سے فوجیوں نے گھیرا ہوا تھا ، قائد کے سامنے مائک موجود تھا جگہ جگہ ساؤنڈ سسٹم لگا دیا گیا تھا ،جگہ جگہ بڑی بڑی اسکرینیں نصب ہو گئیں تھیں ، یہ سب کچھ فوج نے کیا تھا ، سب نے محسوس کیا کہ موسم بہت معتدل ہو گیا ہے ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی
قائد نے اسلام علیکم کہا
ہجوم کی طرف سے وعلیکم سلام کہا گیا
پھر قائد اعظم زندہ باد کے نعرے لگنا شروع ہوئے تو لگتے ہی چلے گئے
قائد نے ہاتھ اُٹھایا اور چُپ رہنے کے لیے کہا ، مجمع اب خاموش ہو چکا تھا
مجھے آج خدا نے موقع دیا کہ میں آپ کو دیکھ سکوں ۔ ۔ ۔ پاکستان کو دیکھ سکوں ۔ ۔ ۔ یہ دیکھ کہ خوشی ہوئی کہ پاکستان اب ایک ترقی کرتا ہوا ملک ہے ، مگر مجھے جو کچھ بتایا گیا ہے پچھلے ستر سالوں کے بارے میں ۔ ۔ ۔۔ اسے سُن کر بہت دُکھ ہوا ، مگر میں یہ بھی کہوں گا کہ آپ نے بھی ستر سالوں میں خود کو نہیں بدلا ، پاکستان کی بنیاد اسلام تھا آپ نے اسلام کے سنہری اصولوں کو چھوڑ دیا ہے ، آپ آج یہ بحث کرتے ہیں کہ پاکستان سیکولر ملک بنایا گیا ، اگر پاکستان کو سیکولر ہی بنانا ہوتا تو تقسیم کیوں ہوتی ؟ کیا باقی ہندوستان سیکولر نہیں تھا ؟ پاکستان کو اسلام کے نظام حکومت کی لیب بننا تھا ، جدید دور میں ایک مثالی ملک ہوتا ، ہمارے درمیان ایک ہی رشتہ تھا جو اسلام کا تھا ، مگر مجھے پتہ چلا کہ قومیت کے بنیاد پر پاکستان ٹوٹ چکا ہے ، اور اب بھی یہاں قومیت ، زبان اور مسلک کی بنیاد پر تقسیم بڑھ گئی ہے ۔ ۔ ۔ مگر سب سے بڑا دُکھ یہ ہوا کہ ۔ ۔ ۔ عوام اور حکمران بالکل الگ الگ ہو چکے ہیں ۔ ۔ ۔ بڑی عمارتیں تو ہم نے بنا ڈالیں ۔ ۔ مگر بڑے کام نہیں کر سکے
میں اردو کو صحیح نہٰیں بول سکتا تھا مگر آج بول رہا ہوں ، کہ شاید اللہ نے آپ کو ایک موقعہ اور دیا ہے ، پاکستان کی قدر کرو ، اس کے لیے تمہیں دن رات کام کرنا چاہیے ، مجھے پتہ چلا ہے کہ چین جیسا ملک بھی آج ایک سُپر پاور بن چکا ہے ، آپ کو ان سے سیکھنا چاہیے ، آپ کو میں نے تین اصول دیے تھے ، ایمان اتحاد تنظیم ۔۔ ۔ مگر افسوس کہ آپ نے سب بھلا دیا ، ابھی وقت ہے اپنی کوتاہیوں سے سیکھیں ۔ ۔ اور صرف کام کام کام کریں ۔ ۔ ۔
میرے پاس وقت بہت کم ہے ۔۔۔۔۔ بس اتنا کہوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ کہ پاکستان کی قدر کرو ۔ ۔ ۔ ۔ ہجوم نہیں قوم بنو ۔ ۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے، آمین، پاکستان زندہ باد
قائد کا سانس پھول چکا تھا ۔ ۔ ۔ وہ کرسی پر بیٹھ گئے ، انہیں تیزی سے ٹرک سے اتارا گیا اور ایمبولینس کے کے ذریے سی ایم ایچ پہنچایا گیا ، جہاں انہیں طبی امداد دی گئی ، قائد نے ہسپتال میں جدید ترین مشنری دیکھی اور پوچھا کیا پاکستان میں سب ہسپتال ایسے ہیں ، نہیں سر ، یہ فوجیوں کے لیے ہے عام لوگوں کے لیے ہسپتال بہت کم ہیں ۔ ۔ ۔ اور انکا حال بھی ابتر ہے
یعنی سب کچھ صاحب اقتدار اور صاحب ثروت لوگوں کے لیے ہے پاکستان میں ۔ ۔ ۔
سر کچھ ایسا ہی ہے ، میں باہر جانا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ قائد اُٹھ کھڑے ہوئے ،
سر آپکو آرام کی ضرورت ہے ،
نہیں میرے پاس اب صرف دو گھنٹے ہیں ۔ ۔ ۔
اور سب روکتے ہی رہ گئے اور قائد عوام میں گھل مل گئے ، دھکم پیل شروع ہو گئی لوگ قائد سے ہاتھ ملانا چاہ رہے تھے ، فوجی بہت مُشکل سے ہجوم کو کنٹرول کر پا رہے تھے ، اور پھر ایک شخص قائد کے قریب آیا ۔ ۔۔ اور زور سے چیخا ، جناح تُم نے پاکستان بنا کر سب سے بڑا گُناہ کیا ہے ۔ ۔ ۔ تُجھے اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسنے اپنی جیکٹ سے چھوٹی سی مشین گن نکالی اور اور قائد پر گولیاں برسا دیں مگر گولیاں قائد کے جسم سے ٹکرا کر گرتی رہیں ۔ ۔۔ جب اسنے دیکھا کہ قائد پر گولی کا اثر نہیں ہو را تو وہ ان سے لپٹ گیا ۔ ۔۔ اور اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ۔ ۔ ۔ قائد اور وہ زمین پر گرے ۔ ۔ مگر کچھ بھی نہ ہوا ۔۔۔ قائد نے اسکا ہاتھ پکڑ رکھا تھا جس میں خودکُش جیکٹ کا کنٹرول تھا فوجیوں نے بھی اسے پکڑ لیا ۔ ۔۔ اور بمشکل اسے قائد سے الگ کیا قائد اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ ۔ ۔ ۔فوجیوں نے دھشت گرد کو چھاپ لیا تھا ۔۔ ۔ مجمع تو گولی چلتے ہی تتر بتر ہو گیا تھا ۔ ۔۔ لوگ اب کافی دور کھڑے تھے ۔ ۔ ۔ سب کچھ اناً فاناً ہوا تھا ۔ ۔ ۔ دس منٹ بعد تمام چینل یہ سب کچھ بریکنگ نیوز پر چلا رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ چینل نے تو قائد کی موت کی خبر بھی نشر کر دی تھی ۔ ۔۔ مگر جب چینل کے کیمرے نے قائد کو فوجیوں کے گھیرے میں دیکھایا تو ۔ ۔ ۔سب کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ ۔۔ اور کیمرہ مین اب فوجیوں کے سامنے آ گئے تھے ۔ ۔ ۔
قائد نے ایک بار پھر سختی سے فوجیوں کو ہٹایا اور دھشت گرد کے قریب آئے جس کو اب فوجیوں نے جکڑ رکھا تھا ۔ ۔۔ اور اپنی گونجتی آواز میں اردو میں بولے
پاکستان گناہ نہیں تھا ، پاکستان ایک انعام ہے ، اللہ کا مسلمانوں کے لیے ۔۔ ۔ اور تم سے کس نے کہا کہ پاکستان میں نے بنایا ؟ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں نے بنایا ۔ ۔ ۔ میں تو ہندوستان سے انگریز کو نکالنا چاہتا تھا ۔۔ ۔ مگر ہندو بنیے نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی ۔۔ ۔ ۔ پاکستان ہم نے نہیں ہندو بنیے نے بنایا تھا ، تقسیم ہندو نے کی تھی ۔ ۔۔ اور پاکستان تو اسی دن بن گیا تھا جب پہلے ہندوستانی نے اسلام قبول کیا تھا ۔ ۔۔ ۔
تُم نے ۔۔۔ مسلمانوں کے ہندوستان کو ہندو کے حوالے کر دیا ۔ ۔ ۔ وہاں کے مسلمانوں کا کچھ نہیں سوچا ۔ ۔ ۔ ۔ دھشت گرد پھر چلایا
ایک فوجی نے آگے بڑھ کر اسکی زور کا تھپڑ رسید کیا اور چیخا ۔۔ ۔ یہ میرا باپ ہے ، میری قوم کا باپ ہے ۔ ۔ ۔ آج یہ نہ ہوتا تو ۔۔ ۔ ۔تو بھی نہ ہوتا ۔ ۔ ۔ آخ تھو ۔ ۔۔ اسنے دھشت گرد پر تھوک دیا
نہیں میرے بچے ۔ ۔ ۔ یہ بھٹکا ہوا ہے ، اور قائد فوجیوں کا گھیرا توڑ کر عوام میں پہنچ گئے ۔ ۔ ۔۔ میں آج کے زمانے میں مر چکا ہوں مجھے دوبارہ نہیں مارا جا سکتا
لوگ قائد کے اردگرد پھر سے جمع ہونا شروع ہو گئے ۔ ۔ ۔ ان میں زیادہ تر نوجوان تھے اور بچے بھی تھے لڑکے لڑکیاں سب قائد کے گرد جمع ہو رہے تھے مگر اب کوئی دھکم پیل نہیں تھی
وہ سب قائد کے اردگرد آتے گئے اور بیٹھتے گئے ۔ ۔ ۔ قائد کے گرد ایک دائرہ بنتا چلتا گیا ۔ ۔۔ فاطمہ جناح جنہیں فوجیوں نے آگے آنے سے روکا تھا وہ بھی اب قائد کے ساتھ کھڑی ہوئیں تھیں
میرے بچو ۔ ۔ ۔ پاکستان اللہ کا انعام ہے ۔ ۔۔ یہ صرف زمین کا ٹکڑا نہیں ۔ ۔ یہ ایک مقدس زمین ہے ، جسے اللہ نے اسلام کے لیے چُنا ، مسلمان مصیب میں نہیں گبھراتا ، ہمیں بہت دُکھ دیے گئے ہیں ، مگر ہم مسلمان ہیں ، ہم اُس نبی ﷺ کے ماننے والے ہیں جس نے بہت دُکھ اُٹھائے ہمارے لیے ۔ ۔ ۔ ہم حُسین کے ماننے والے ہیں ہر زمانے میں حق پر چلنے والوں کے لیے کربلا بپا کی گئی ۔ ۔ ۔ مگر اسلام زندہ ہوا ہر کربلا کے بعد ۔۔ ۔ میں کچھ دیر کے لیے تمہارے پاس ہوں ۔ ۔ مگر میں ہمیشہ تمہارے بیچ میں موجود رہوں گا ۔ ۔۔ میں مایوس نہیں ہوا کبھی بھی ۔ ۔ ۔ تم بھی نہ ہونا ۔ ۔ ہجوم میں پن ڈراپ سیلینس ہو چکا تھا
قائد خاموش ہوئے تو ایک لڑکی اُٹھی ، بابا ۔، ۔۔ مم سس سس سوری سر ۔ ۔۔ مجھے آپ کو بابا کہنا اچھا لگا آپ میرے ابو جیسے ہیں
بیٹا میں اس ساری قوم کا باپ ہوں ۔ ۔۔ اور تم سب میرے بیٹے بیٹیاں ہو ۔ ۔ ۔
بابا ۔ ۔ ۔ آپ کو پاکستان میں اب ایسا کیا لگا ہے کہ آپ اب بھی امید سے ہو ؟
قائد مسکرائے ۔ ۔ ۔ اور اسکی طرف اشارہ کیا ۔ ۔۔
ہاں مجھے امید نہیں یقین ہے کہ پاکستان میں تم ہو ۔ ۔ تم سب ہو ۔ ۔ ۔ بس تم میں جو چیز کی کمی ہو گئی ہے وہ ہے اتحاد ، یقین محکم اور تنظیم کی ۔ ۔ ۔
مگر سر ہم عوام تو یہ سب مانتے ہیں مگر ہمارے حکمران ۔ ۔ ۔ ایک لڑکے نے کھڑے ہو کر کہا
حکمران بھی آپ نے بنائے ہیں ۔ ۔ یاد رکھیے قوم کا رہبر بھی آپ میں سے ہی ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ آپ ہی اسے آگے لاتے ہیں ۔ ۔ ۔ آپ اچھے اور ایماندار لوگوں کو اپنا نمائندہ بنائیں ۔ ۔ ۔ نہ کہ صرف دولت اور طاقت والے کو حاکم بنا دیں
تو آپ موجودہ حکمرانوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ، ایک اور نوجوان نے پوچھا
وہ سب آپ جیسے ہیں ، قائد نے مختصر جواب دیا ، آپ کو اب خود مقابلہ کرنا ہو گا ۔ ۔ ۔ قربانی دینا ہو گی ۔ ۔۔ یاد رکھو یہ آزادی ایسے نہیں ملی ۔۔ ۔ لاکھوں افراد کی قربانی ہے ۔ ۔ آپ ایک دوسرے کے ۔ ۔ ۔ ۔
ایک دم سے پھر گولیوں کی ترتراہٹ شروع ہوئی گولیاں قائد کے پاس سے گذریں ۔ ۔۔ مگر اب سب کھڑے ہو گئے اور دیکھا تو دھشت گردوں نے اب چاروں طرف سے گھیر لیا تھا ۔ ۔ ۔ کالے کپڑوں میں ملبوس دھشت گردوں کے ہاتھوں میں جدید ہتھیار تھے ۔ ۔ ۔ مگر اس بار انہیں نوجوانوں نے انہیں دبوچ لیا تھا ۔ ۔ ۔ لوگ دیوار بن کہ قائد اور مادر ملت کے اردگرد گھیرا ڈال کہ کھڑے ہو گئے ۔ ۔ ۔ فائرنگ رک گئ تھی ۔۔ ۔ فوجیوں نے ایک ایک دھشت گرد کو دبوچ لیا تھا ۔ ۔۔مگر اس وقت تک کتنے ہی لوگ گولیوں کی زد میں آ چکے تھے ۔ ۔ ۔ ایمبولینسیں چیخ رہی تھیں ۔ ۔ قائد ایک نوجوان جو گولیوں سے چھلنی ہو چکا تھا ۔ ۔ ۔ اس کے سامنے بیٹھ چکے تھے انکا ہاتھ جوان کے ہاتھ میں تھا ۔۔ ۔ ۔۔ جوان کی اکھڑی ہوئی سانسیں بتا رہیں تھیں کہ وہ چند لمحوں کا مہمان ہے اس نے بمشکل بولنے کی کوشش کی
بابا ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے بتائیے کہ میں کیوں مارا گیا ۔ ۔ ۔ میرا قصور کیا تھا ۔۔ ۔ ؟؟
قائد کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ ۔ ۔۔ میرے بیٹے ۔ ۔ ۔ میرے بیٹے ۔ ۔ ۔ اب نہیں ہو گا ایسا ۔ ۔ ۔ ایک نیا سویرا نکلے گا ۔ ۔۔
مم مم مگر وہ سویرا میں کیوں نہیں دیکھ سکوں گا ۔ ۔ ۔ ۔۔ ؟
قائد نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا ۔ ۔ ۔ میرے بچے ۔۔ ۔ ۔ یہ یقین رکھو کہ تم چراغ آخر شب ہو ۔ ۔ ۔ تمہارے بعد اندھیرا نہیں روشنی ہے ۔ ۔۔ تم نے روشنی کو ختم نہیں ہونے دیا ۔ ۔ ۔
نوجوان نے قائد کے گال سے آنسو پہنچتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔
ہم ہم ہماری روشنی آپ ہیں ۔۔ ۔ ہم ہی بھٹک گئے تھے ۔ ۔
نوجوان نے ایک ہجکی لی اسکے منہ سے خون آنے لگا ۔ ۔ ۔
اللہ ہمیں معاف کرے ۔ ۔ ۔ ہم بھٹک گئے تھے ۔ ۔ ۔۔اور پھر ایک جھٹکا لگا اور اسکی گردن ایک طرف ڈھلک گئی ۔ ۔ ۔ یہ سب کچھ ایک چینل براہ راست دیکھا رہا تھا ۔ ۔ ۔۔ ملک بھر کے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے
قائد نے گھڑی دیکھی جس میں بیس منٹ باقی تھے ۔ ۔ ۔۔
قائد نے نوجوان کو آرام سے زمین پر رکھا ۔ ۔ ۔ اور کھڑے ہوئے ۔ ۔ ۔۔ آہ ہو بکا جاری تھی ۔۔۔ فاطمہ جناح بھی زخمیوں کے ساتھ تھیں ۔ ۔۔ سرکاری گاڑیاں اب قائد کے پاس پہنچ چکی تھیں ۔ ۔ ۔ جن میں انکے ساتھی موجود تھے ، گھڑی کی سوئیاں اُلٹی چل رہی تھیں جس پر اب بہت تھوڑا وقت تھا ۔ ۔ ۔ قائد نے ایک نظر ہجوم کی طرف دیکھا اور ہاتھ ہلایا ، فضا قائداعظم زندہ بادہ ، پاکستان زندہ باد ۔ ۔ پائیدہ باد کے نعروں گونجنے لگی ، فاطمہ جناح نے بھی ہاتھ ہلائے ۔ ۔ ۔ اور گاڑی میں بیٹھ گئیں ، گاڑیاں تیزی سے ائرپورٹ کی طرف بڑھنے لگی ، سڑکوں کے ارد گرد لوگ ہی لوگ تھے جنہوں نے بینر اور پاکستان کے جھنڈے اُٹھا رکھے تھے قائد اعظم زندہ باد پاکستان پائندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے
قائد کو رخصت کرنے کے لیے ملک کی اعلٰی شخصیات موجود تھیں ۔ ۔ ۔ قائد سب کے ساتھ ہاتھ ملاتے رہے ۔۔ ۔ ۔ دو بچوں نے قائد اور فاطمہ جناح کو گلدستے پیش کیے، قائد وزیر اعظم صدر اور چیف سے ہاتھ ملا رہے تھے چیف نے انہیں سلیوٹ کیا ۔ ۔۔ اور ساتھ ہی کہا ۔۔ ۔ کہ میری زندگی کا یہ سب سے یادگار سلوٹ ہے ۔ ۔ ۔ قائد کے جہاز کی چند سیڑھیاں تھیں ۔ ۔ انجن اسٹارٹ ہو رہا تھا ۔ ۔قائد نے اندر داخل ہوتے ہوئے ایک بار مڑ کہ دیکھا انکی اآنکھوں میں آنسو جھلما رہے تھے ۔ ۔۔ انکے منہ سے نکلا ۔ ۔
خدایا میرے پاکستان کی حفاظت کرنا ، اس میں رہنے والوں کی حفاظت کرنا ، اسے دنیا میں وہ مقام دینا جس کے لیے یہ بنا تھا ۔ ۔ ۔اور پھر قائد طیارے میں داخل ہو گئے
جہاز کے انجن اسٹارٹ ہو چکے تھے اسکے پنکھے تیزی سے گھوم رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ تین منٹ باقی رہ گئے تھے ۔۔ ۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جہاز فضا میں بلند ہوا
ابھی جہاز نے ٹیک آف کیا ہی تھا کہ ایک بڑا سا چمکتا ہوا دائرہ نمودار ہوا اور جہاز اس دائرہ میں داخل ہو کر گُم ہو گیا ۔ ۔ ۔ اور دائرہ ایک چمک کے ساتھ غائب ہو گیا ، اسکے ساتھ ہی پھول آسمان سے برسنے لگے یہ ان گلدستوں کے پھول تھے جو قائد اور محترمہ فاطمہ جناح کو دیے گئے تھے
وزیر اعظم نے سر اُٹھا کہ دیکھا ۔ ۔ ۔ اور پھر آسمان کی طرف دیکھا ۔ ۔۔ جیسے کہ رہے ہوں کہ شکر ہے ۔ ۔۔ یہ چلے گئے ، یہ رہ جاتے تو ہمارا کیا ہوتا ؟
دوسری طرف ائیرپورٹ کے باہر ہجوم چھٹنا شروع ہو گیا تھا ۔ ۔ ۔۔ ٹی وی چینل تبصرے کر رہے تھے ۔ ۔ ۔ سب شکر کر رہے تھے کہ کم سے کم ایک دو ہفتے کے لیے ٹاک شو کا موضوع مل چکا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
دوسری طرف ۔ ۔ ۔ ۔ بریکنگ نیوز چل رہی تھی ۔۔ ۔ ۔قائد کے جلوس میں شہید ہونے والوں کی تعداد پچاس ہو چکی تھی ۔۔ ۔ ۔
قائد کی واپسی ۔ ۔ ۔ واپس ہو چکی تھی ۔ عوام بھی نعرہ بازی کر کہ گھر جا چکے تھے ۔۔ ۔ اور قوم ایک بار پھر تھک ہار کر سو چکی تھی ۔۔
(ختم شد)

پاکستان – ضروری تو نہیں

جی ہاں ، پاکستان ضروری تو نہیں ، دنیا پاکستان کے بنا بھی چل رہی تھی نا تو پاکستان کیوں بنا ؟ اس اگست میں میں نے سوچا ہے کہ پاکستان کے حق میں کوئی بات نہ کی جائے ، کہ پاکستان کے حق میں تو بات کرنے والے بہت ہیں ، پاکستان کے مخالف تو نہ ہونے کے برابر ہیں ، اس لیے میں پاکستان کے خلاف بولوں گا ۔ ۔ ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی تقریری مقابلے میں حق میں اور مخالفت میں تقاریر ہوتی ہیں ، میں کسی مقابلے کا حصہ تو نہیں ہوں ۔ ۔ مگر میں نے موضوع کی مخالفت میں بولنا ہے ، کر لو جو کرنا ہے !!

تو بات ہو رہی تھی کہ پاکستان ضروری تو نہیں تھا ، بلکہ بقول ہمارے الطاف بھائی کے پاکستان دنیا کا سب سے بڑا “بلنڈر“ تھا ، پہلی بات ہے یہ نام ہی غلط ہے ، پاکستان یعنی پاک سر زمین ، یعنی ہندوستان کی زمین ناپاک تھی جو یہ پاک زمین بنائی گئی ، اور یہ پاک زمین بھی تو ناپاک ہندوستان ہی تو تھی ، ہم نے تو نام بدل دیا ، بالکل ایسے جیسے بمبئی کا نام ممبئی کر دیا گیا یا کلکتہ کا نام کولکتہ ہو گیا ۔ ۔ ۔ تو بنارس چنائی بن کہ بدل تو نہیں گیا ؟ اس لیے پاکستان کی زمین بھی پاک نہیں ہوئی ، گو آزادی کے وقت اسے لاکھوں بے گناہوں کے خون سے بھی دھویا گیا اور آج تک دھویا جا رہا ہے

اصل میں لوگ پاکستان کے قیام کو ہی غلط سمجھتے ہیں کیونکہ آج ساٹھ سال بعد ہمیں پتہ چلا ہے کہ پاکستان ایک سیکولر ملک کے طور پر بنا تھا ، اور آج تک ہم جو اسلام کو پاکستان سے جوڑتے رہے ہیں وہ سب غلط ہے ، اس سلسلے میں ہمارے بہت بڑے بڑے دانشور اپنی تحقیق سے ثابت کر چکے ہیں کہ اسلام کا پاکستان سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ، قائد اعظم (یعنی جناح صاحب) بہت ہی بڑے سیکولر انسان تھے ، بھائی جس شخص نے ایک پارسی لڑکی سے عشق لڑا کر شادی کی ہو ، گوکلے جس کا بیسٹ فرینڈ ہو ، سروجنی نائیڈو جسکی تعریف کرتے نہ تھکے ۔ ۔۔ جو اپنی بہن کی شادی تک نہ ہونے دے ۔ ۔۔ اسکا بھلا اسلام سے کیا تعلق ۔ ۔ ۔ جس شخص نے ہمیشہ لباس ہی انگریزی پہنا ہو ، بولتا ہی انگریزی ہو ، زندگی کے بہترین سال اسنے پیسہ کمانے میں گزارے ہوں ، بھلا اسکا اسلام سے کیا تعلق ۔ ۔۔ اور اُس نے ایسا ملک کیوں بنانا تھا کہ جو اسلام کی بنیاد پر بنا ہو ۔ ۔ ۔؟؟ جناح صاحب کی زندگی پر بعد میں نظر ڈالیں گے پہلے پاکستان کو تو دیکھ لیں

تو پاکستان ایک سیکولر ملک بنا تھا ، اسے بعد میں ملاؤں نے ہائی جیک کر کہ اسلامی جمہوریہ بنا ڈالا ، اور ہاں یہ جو لاکھوں بے وقوف مرے تھے پاکستان آنے کے لیے ۔۔ ۔ انہیں لازمی مِس گائیڈ کیا گیا تھا ۔ ۔ ۔ ورنہ ایک سیکولر ملک سے دوسرے سیکولر ملک میں جانے کے لیے جان دینا بے وقوفی نہیں تو اور کیا تھا ۔ ۔ ۔ اور پاکستان تو تھا ہی سیکولر ، بھئی جس کا وزیر خارجہ ایک قادیانی ہو (جو جناح کا جنازہ تک نہ پڑھے ) ، جس کی کابینہ میں ہندو وزیر ہو ، جسکی فوج کا سربراہ عیسائی انگریز ہو ۔ ۔ ۔ تو اسلامی ممللکت کہاں سے آ گئی ؟؟ جناح صاحب گیارہ اگست والی تقریر میں چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ پاکستان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں مگر کوئی سنتا ہی نہیں انکی تقریر (کیونکہ ملتی نہیں ہے پوری )

مگر سمجھ نہیں آتی جب اقبال نے کہا تھا کہ انتظامی طور پر مسلم ریاستیں الگ کر دی جائیں تو پاکستان کی ضرورت کیا تھی ؟؟ اور پھر اسلام کا تڑکا کیوں لگایا گیا ؟ اصل میں پاکستان بنگالی جاگیرداروں نے بنایا تھا ۔ ۔۔ اور اسی لیے بنگال لے کر علیحدہ ہو گئے ، باقی رہا موجودہ پاکستان ۔ ۔ ۔ تو اسکی آزادی تو تھی ہی غلط ۔ ۔ ۔ لفظ آزادی بھی غلط ہے ، علیحدگی ۔۔ ۔ میرے خیال میں یہ بھی غلط ہے ۔ ۔۔ ہندوستان کا بٹوارہ ۔ ۔ ۔ ہاں یہ ٹھیک ہے ، بھئی انگریزوں سے آزاد تو ہندوستان ہوا تھا نا ، پھر ہم ہندوستان سے الگ ہو گئے ، پھر بنگال ہم سے الگ ہو گیا ، اور اب بلوچستان اور سندھ علیحدگی کے لیے تیار ہے ، پنجاب میں سرائیکی الگ ہو رہے ہیں ۔ ۔ ۔ پوٹھوہار الگ ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔۔ میرے خیال میں کچھ عرصے بعد راولپنڈی کے جی ایچ کیو کے کسی جنرل کی ٹیبل کا نام پاکستان رہ جائے گا ہے نا ۔ ۔۔ باقی رہی آزادی کی بات ۔ ۔۔ تو اس سرزمین میں بے وقوفوں کی کمی نہیں جو لوگ لاکھوں کی تعداد میں ایک “ہندو“ پروپگنڈے پر اپنی جانیں دے دیتے ہیں کہ پاکستان اسلامی ملک بنے گا ۔ ۔۔ اور تو اور یہاں ایسے بھی لوگ موجود تھے کہ جو لندن جا کہ کہتے تھے کہ مجھے اب ایک غلام ملک میں جا کہ نہیں مرنا اور آزاد ملک میں ہی مر جاتے تھے (جزباتی لوگ) ۔ ۔ ۔۔ اور ابھی بھی ایسے موجود ہیں جو لندن جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں آزاد پاکستان میں واپس نہیں آنا ۔۔ ۔ ۔ مگر جذباتی نہیں ہوتے ۔ ۔۔ کیونکہ پتہ نہیں کب ہوا کا رُخ بدل جائے اور انہیں پاکستان آنا پڑے ایک آزاد ملک سے ۔ ۔ ۔ اور پاکستان کے بننے کی غلطی کو ختم کرنا پڑ جائے ۔ ۔ کیونکہ ۔۔ ۔ ۔ پاکستان ۔۔ ۔ ضروری تو نہیں ۔ ۔ ۔۔
(جاری ہے )

رگوں میں اندھیرا

1983 پی ٹی وی کا ڈرامہ "رگوں میں اندھیرا” ، آج جانے کیوں یاد آیا تو دیکھا جب تو بہت کچھ آنکھوں میں پھر گیا ، خاص کر جمیل فخری کو دیکھ کر آنکھیں بوجھل ہو گئیں ، زیب رحمٰن ، عابد بٹ ، نگہٹ بٹ ، انور علی ، عرفان کھوسٹ ، منا لاہوری اور مرکزی کردار میں راحت کاظمی ، ایسے پتہ چلا کہ آج کی کہانی ہی تھی ، ہمارے رائٹر سوئے نہیں تھے جیسے آج سو گئے ہیں ، وہ مستقبل دیکھ رہے تھے ۔ ۔ ۔۔ بے مثال اداکاری ، لاجواب کردار نگاری اور بہترین سکرپٹ ، زبردست ڈائریکشن ۔ ۔۔ تعریف کے الفاظ کم ہیں

مگر جو سین دل کو کاٹ گیا ، اسے اس تصویر میں پیش کر رہا ہوں ، مرحوم جمیل فخری اور سارہ (میں نام اگر بھول گیا ہوں تو بتا دیجیے گا ) ، آج کے مسنگ پرسن کی یاد دلا گیا ۔۔ ۔ ۔ یہ سین دس بار دیکھیں اور یاد رکھیں کہ کل ایک کے ساتھ یہ ہوا تھا اب ہزاروں کے ساتھ ہو رہا ہے ، کیونکہ اب ہم خاموش ہیں ۔ ۔۔ ۔ ۔
ragon-mai-andheera