میں سٹوڈیو سے نکل کر ہمیشہ کی طرح بوفیز میں پہنچا تو دیکھا کہ میری مخصوص میز پر کچھ الٹرا ماڈرن قسم کی لڑکیوں نے قبضہ کیا تھا، ویٹر جو میری پسندیدہ جگہ جانتا تھا، میری طرف دیکھ کر مجبور سی مسکراہٹ کے ساتھ ایک خالی میز کی طرف اشارہ کیا، میں بھی مسکرا کر ابھی کرسی پیچھے کر ہی رہا تھا کہ ایک آواز آئی
ارے اطہر تم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اوہ عابد ۔ ۔۔ ۔ تم ۔۔۔ ۔
پھر ہم گرمجوشی سے گلے ملے ، یار تم ، کہاں ہوتے ، یار تم مجھے بھول جاؤ گے یہ تو میں سوچ بھی نہیں سکتا،
ارے ملتے ہی گلے، میں نے منہ بنا کر کہا
ہاں گلہ نہ کروں تو کیا کروں پتہ ہے پورے تین سال بعد ملے ہو، انسٹی ٹیوٹ کے بعد ۔ ۔۔ اسکے الفاظ مجھے ماضی میں لے گئے
ہاں، تین سال ، آٹھ مہینے ، بارہ دن ، چار گھنٹے ۔ ۔۔ میرے منہ سے الفاظ جیسے بہنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔
ہونہہ ، ابھی بھی وہیں ہو ۔ ۔ ۔ ۔ عابد کا لہجہ عجیب ہو گیا،
پتہ نہیں، میں جیسے کسی گہری نیند سے جاگا تھا، ارے یار، مجھے تو بھوک لگ رہی ہے ، قسم سے پچھلے پانچ گھنٹے سے کچھ نہیں کھایا ۔۔ ۔ ۔۔
اطہر ، ا ب کیا کہوں تم سے ،ذرا بھی نہیں بدلے ۔ ۔ ۔
کیسے بدلوں ۔ ۔ ۔
یار سچی بات تو یہ ہے کہ ، میں تم سے کافی عرصے سے ملنا چاہتا تھا، اور وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا
ارے یار چائے تو پی لو،
نہیں یار، دیر ہو جائے گی ، اور میری بی وی مجھے گھر میں گھسنے نہیں دے گی ۔۔ ۔
ہیں ۔۔۔ تم نے شادی کر لی ۔ ۔۔ کب
یار تم میرے ساتھ گھر چلو ، میں نے اسکے لہجے میں ایک عجیب سی بے بسی محسوس کی ۔ ۔ ۔ وہیں کھانا کھا لیں گے
مگر ۔۔۔ میں نے عابد کی آنکھوں میں التجا دیکھی تو بول اٹھا
ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے ، میں بھی گھر فون کر لوں ۔ ۔ ۔
تو کیا تم نے بھی ۔ ۔ ۔۔ ۔
ارے نہیں یار ، میں تو آوارہ پنچھی ہوں ۔ ۔ ۔ اکیلا ہی ان سڑکوں کا راہی ، ہم سڑک پر تھے ، عابد ایک ٹیکسی کو روک چکا تھا ، وہ دراصل ماما پریشان ہو جاتیں ہیں ۔ ۔
یار گھر سے ہی کر لینا ، وہ میرے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا، آنٹی کیسی ہیں ،
اچھی ہیں ، تمہیں کبھی کبھی یاد کرتیں ہیں ۔۔۔۔
اور تم ۔ ۔ ۔
میں تو صرف ایک ہی یاد کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو ۔۔ ۔
میں اسی کے سلسلے میں تم سے ملنا چاہتا تھا، عابد نے مجھے چونکا دیا
رافعہ کے لئے ۔۔۔ میرے منہ سے نکلا
ہاں ۔۔ ۔ مگر پھر ایک دم اسکا لہجہ بدل گیا، میں بھی کیا ذکر لے بیٹھا
نہیں عابد آج بہت دن بعد میرے ہونٹوں پر اسکا نام آیا ہے، میں تو ۔۔ ۔ میں تو ۔ ۔ ۔
دھیرے یار ۔۔ ۔ میری آواز شاید کافی بلند ہو گئی تھی، میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں ۔ ۔۔
کیا ، ۔ ۔ ۔ مجھے اسکا لہجہ بہت پرسرار لگا ۔ ۔ ۔
دیکھ ہی لو گے ۔ ۔ ۔اس نے چپ سادھ لی ۔ ۔ ۔ ٹیکسی جانی پہچانی سڑکوں سے گذرنے لگی ، پھر ایک موڑ پر میں چونک اٹھا ، اسی موڑ پر میں پہلی بار رافعہ سے ملا تھا، اور پھر اسی کا ہو کر رہ گیا تھا، مگر اسنے مجھے ٹھکرا دیا تھا ۔ ۔ ۔ بہرحال عابد میرا ہمراز دوست تھا، ہم تینوں کلاس فیلو تھے ، ٹیکسی انٹی ٹیوٹ کے سامنے سے گذر رہی تھی ۔ ۔۔ ۔
اطہر تمہیں یہ جگہ یاد ہے ؟ ۔۔۔ ۔
ہاں ۔ ۔۔ ۔ یہ بھول سکتا ہوں میں ۔ ۔ ۔ میں جب بھی ادھر سے گذرتا ہوں ۔ ۔۔ تو بہت کچھ یاد آتا ہے ۔ ۔ ۔ بہت کچھ میں نے گہری سانس لی ۔ ۔ ۔ مگر کافی عرصہ ہوا ادھر آیا نہیں ۔ ۔ ۔ پتہ نہیں کیا کچھ بدل گیا ہو ۔ ۔ ۔
بہت بدل گیا ہے ، سب پرانے لوگ چلے گئے ہیں ۔۔ ۔ ۔ نئے ٹیچر ہیں سارے ۔ ۔ ۔ ۔
ہاں ۔ ۔ ۔ پرانے لوگ چلے ہی جاتے ہیں۔ ۔ ۔ مگر یادیں کبھی پرانی نہیں ہوتیں ۔ ۔ ۔ کبھی نہیں جاتیں کہیں نہیں جاتیں ۔ ۔ ۔
لگتا ہے تم ابھی تک اسی شاک میں ہو ، کچھ نہیں بھولے
کون بھول سکتا ہے اس طرح ٹھکرائے جانے کو ۔ ۔ ۔
ہاں میں نے تمہارے کچھ ڈرامے دیکھے ہیں ، ان میں تمہارا یہ احساس مجھے بہت نمایاں نظر آتا ہے ۔ ۔ اور تم خود ایسے رول بھی تو کرتے ہو ۔ ۔اسنے ٹیکسی کو ایک سڑک پر مڑنے کا اشارہ کیا ۔ ۔ ۔
ہونہہ ۔ ۔۔ شاید صحیح کہ رہے ہو ۔ ۔ ۔ آں ۔ ۔ تم نے اپنی شادی کا نہیں بتایا کب ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔میں نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا ۔ ۔ ۔
بتا دوں گا ، ہاں ادھر روک دینا ۔ ۔ ۔ عابد نے ٹیکسی ڈرائیور کو رکنے کو کہا ۔۔ ۔اور اپنا ویلٹ نکال کر کرایہ ادا کر دیا
لو بھائی یہ ہے ہمارا غریب خانہ ۔ ۔۔ عابد نے میرے ہاتھ سے سکرپٹ لیتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔
ہونہہ ۔ ۔۔ غریب خانہ ۔ ۔ میں نے اسکے وصیح و عریض بنگلے پر نظر ڈوڑائی ۔۔ ۔عابد نے بیل پر ہاتھ رکھ دیا
گاڑی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ میں نے پتہ نہیں کیوں پوچھا
یار دونوں ورکشاپ میں ہیں ۔ ۔ آفس کی گاڑی یوز کر رہا ہوں ۔۔۔ آجکل ۔ ۔۔
دروازہ کسی ملازمہ نے کھولا تھا ، عابد میرا ہاتھ پکڑ کر اند ر داخل ہو ۔۔ ۔ وعلیکم سلام ۔ ۔ رجو ۔ ۔ بیگم صاحبْہ کہاں ہیں ، عابد نے اسکے سلام کا جواب دیا
وہ جی اپنے کمرے میں آرام کر رہی ہیں
جاؤ ان سے کہو اپنے ہاتھ کی اچھی سی چائے بنا لائیں، آج ایک بہت ہی خاص مہمان ہمارے گھر آیا ۔ ۔ ۔ مجھے پتہ نہیں کیوں عابد کا لہجہ کھوکھلا لگا ۔ ۔
اچھا جی ۔ ۔ رجو دوسری طرف مڑ گئی ، آؤ اطہر ۔ ۔ وہ مجھے ایک طرف کھنچ کر ڈرائنگ روم میں لے گیا ۔ ۔ ۔
واہ بھئی خوب ٹھاٹھ ہیں، میں نے سجاوٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ۔ ۔
بس یار ۔ ۔ ۔اللہ کا کرم ہے ، اور ہماری بیگم صاحبْہ کا کمال ہے، اچھا تم کیا کر رہے ہو آج کل اداکاری و فنکاری کے علاوہ
اداکاری کے علاوہ بھی اداکاری ہی کر رہا ہوں زندگی کے سٹیج پر ، میں نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔ اور تم ؟؟
ایک فرم کا ڈائریکٹر ہوں ۔ ڈرامے کا نہیں ، کام کا ۔ ۔
میں ہنس دیا ۔ ۔ ۔ پھر کچھ دیر ہم خاموش ہو گئے ۔ ۔۔ جیسے کچھ کہنے کو نہ ہو، کہ اندر والے دروزے سے کھڑکھڑاہٹ کی آواز آئی ۔ ۔ ۔ ۔
لو بھئی چائے آگئی اور ہماری بیگم بھی ، میں اٹھ کھڑا ہوا، عابد کہ رہا تھا، یہ میرے دوست ۔۔ ۔ ۔ مگر نہیں تمہیں تعارف کی کیا ضرورت ، تم تو ایک دوسرے کو جانتے ہو
پھر میری آنکھیں جیسے چندھیا گئیں، ایک دھچکا سا لگا دل کو ، زبان کنگ ہو گئی ۔ ۔ ۔۔ میرے منہ سے اتنا ہی نکلا ۔ ۔
رافعہ ۔ ۔۔ آپ ۔۔۔۔۔۔ عا۔۔۔۔بد ۔۔۔۔۔ یہ یہ ۔۔۔۔ میرا سر چکراتا ہوا محسوس ہوا، آنکھوں میں ایک دم اندھیرا چھا گیا ۔۔۔۔ میرے سامنے ، میری تمنا، میری آرزو، میری چاہت ۔۔۔ رافعہ ۔۔۔۔عابد کی بی وی کے روپ میں کھڑی تھی ۔۔۔۔ وہ ہی رافعہ جس نے مجھے ٹھکڑا دیا تھا، میں صوفے میں گرتا چلا گیا ، عابد میری کیفیت سمجھ چکا تھا ارے ارے کر کے میری طرف لپکا ۔۔ ۔ اور پھر جیسے میں بے ہوش ہو گیا ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اطہر، اطہر کیا ہوا، آنکھیں کھولو ۔۔ ۔ ۔اسکے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا ۔ ۔۔۔ایک ہلکی سی سسکی سنی میں نے ، عابد مجھے سہارا دے کر اٹھا رہا تھا، مگر میں نے اسے اشارے سے منع کر دیا،میں ٹھیک ہوں۔ ۔۔ ۔ یہ سب ۔۔۔ یہ سب کیا خواب ہے ؟ میں نے لڑکھڑاتے ہوئے لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔
نہیں ، یہ حقیقت ہے، بھیانک حقیقت ، تمہارے لئے بھی اور میرے لئے بھی ۔۔۔۔وہ مجھ سے نظر چراتے ہوئے بولا
مگر مگر یہ ہوا کیسے ۔۔۔۔ تم تم تو اسے صحیح طرح سے جانتے بھی نہ تھے ۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ ہے کہاں ۔۔۔ میں نے رافعہ کمرے میں نہ پا کر بولا
اپنے کمرے میں چلی گئی ہے ، کہ رہی تھی مجھے تمہیں ادھر نہیں لانا چاہیے تھا، وہ ایک لمبی سی سانس لے کر بولا
ہاں ٹھیک ہی تو کہ رہی ہے ، مجھے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ مجھے چلا جانا چاہیے ، میں اٹھ کھڑا ہواء
نہیں تم نہیں جاؤ گے۔۔۔ تمہیں وہ سب جاننا ہو گا جو میرے ساتھ ہواء ، اطہر قدرت کے اس مذاق پر میں بھی ہنسوں گا تم بھی ہنسو گے ، اسنے مجھے کندھوں سے پکڑ کر بیٹھا دیا
نہیں یار میں تمہاری زندگی میں زہر نہیں گھولنا چاہتا۔ ۔۔ میں نے ایک بار پھر اٹھنے کی کوشش کی
اور خود کڑہ کڑہ کر مرنا چاہتے ہو ؟ عابد نے تیز لہجے میں جواب دیا
یکطرفہ محبت کا یہی انجام ہوتا ہے ، میری آواز بھرا گئی
یکطرفہ ، وہ چیخ اٹھا ، کس نے کہا کہ تمہاری محبت یکطرفہ تھی، کس نے کہا؟ اسنے ایک بار پھر مجھے بٹھا دیا اور میرے پہلو میں آبیٹھا
یکطرفہ نہیں تو اور کیا ۔۔۔۔ اسنے کبھی میرے متعلق سوچا ہی نہ تھا
جھوٹ ہے یہ۔۔۔ وہ تمہیں چاہتی تھی ۔ ۔۔ اور ۔۔۔ اور شاید چاہتی ہے ۔ ۔۔ تمہیں پتہ ہے تمہارے سارے ڈراموں کا انتخاب ہے اسکے پاس اور اکثر تمہارے سین باربار دیکھتی ہے
تمہارے سامنے ، میں نے حیرت سے پوچھا
ہاں اس نے مجھ سے کچھ نہیں چھپایا ۔ ۔ ۔ اپنی زندگی کا ایک ایک پل مجھ پر عیاں کر دیا ، وہ محبت کی پیاسی تھی ۔۔۔ اسے بھی چاہے جانے کا ارمان تھا ۔۔۔ میں نے اسے پیار دیا ۔ ۔ ۔ مگر شاید عابد کا نہیں ۔ ۔۔ تمہارا ۔ ۔ ۔ اطہر کا۔ ۔۔ وہ تمہیں اب بھی چاہتی ہے اطہر ۔ ۔ ۔ اب بھی ۔ ۔ ۔
وہ مجھے اب بھی چاہتی ہے ، میرے دل میں ایک لہر اٹھی ، وہ مجھے چاہتی ہے مگر وہ تو اسکی بیوی ہے ۔۔۔۔ اور یہ وہ سب مجھے کیوں بتا رہا ہے ۔۔ ۔ میں سوچ رہا تھا مگر کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا وہ کہ رہا تھا
اطہر وہ تمہیں چاہتی ہے ، پہلے بھی چاہتی تھی اب بھی چاہتی ہے
نہیں نہیں ۔۔۔ میں چیخ اٹھا۔۔۔ اسنے کبھی مجھے نہیں چاہا۔۔۔ تم لوگوں کے سامنے انکار کیا تھا ۔۔ ۔ نہیں عابد اسنے مجھے کبھی نہیں چاہا ۔ ۔ ۔
اطہر تمہیں اصل حالات کا علم نہیں۔۔۔ تمہیں مسرت یاد ہے، وہی جس کے تھرو تم نے اس تک پیغام پہنچایا تھا ۔ ۔۔ ارے وہ لمبی سی لڑکی۔ ۔ ۔ اسکی ایک ہی تو سہیلی تھی ۔ ۔۔
ہاں ہاں مجھے یاد ہے ، میں نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا
وہی اصل کردار ہے تمہارے ڈرامے کی ۔ ۔
وہ ۔۔۔ مگر کیسے ۔۔۔ میں حیران ہو گیا تھا
میں تمہیں تفصیل بتاتا ہوں
نہیں عابد مجھے اندھیرے میں ہی رہنے دو ، میں تمہاری زندگی کوخراب نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔ مجھے اندھیرے میں ہی رہنے دو ، ایسا نہ ہو کہ ۔ ۔۔ میں ۔۔۔۔ میں ۔۔۔ میرا سر جھک گیا ۔ ۔ ۔
نہیں اطہر ۔۔۔ تمہیں جاننا ہو گا ۔۔۔ تم گھر فون کر کہ بتا دو کہ آج رات تم یہاں رہو گے میرے پاس ۔ ۔۔
تمہارے پاس۔۔۔۔
ہاں میرے پاس ۔۔۔ گھر کا نمبر بتاؤ ۔۔ اسنے کارڈلیس اٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔ اور پھرمیں گھر میں بتا دیا
رجو ۔۔رجو ۔۔۔ کھانا تیار ہو گیا ہے کیا ۔۔۔ عابد نے آواز لگائی۔۔۔۔
رجو چلی گئی ہے ۔۔۔۔۔
وہ کمرے میں داخل ہوئی تو میرے دل میں پھر سے وہی ہلچل شروع ہو گئی۔۔۔ مگر خود کو سنبھالنا پڑا۔۔۔۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا۔۔۔ اسکی مترنم آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ روئی تھی
چلیں کھانا لگا دیا ہے میں نے
مجھے اسکی آواز کوسوں دور محسوس ہوئی ، حتہ کہ ہمارے درمیان فاصلہ بہت کم تھا۔۔۔ ہم کھانے کی میز پر آئے ۔۔۔ کھانا خاموشی سے کھایا گیا۔۔۔ بلکہ کیا کھایا گیا ۔۔۔ میں تو چمچ اور کانٹے سے کھیلتا رہا ۔۔۔ اور شاید وہ دونوں بھی ۔۔۔ کھانے کے بعد ہم صوفوں پر بیٹھ گئے
اطہر چائے پیو گے ۔۔۔ عابد نے پوچھا
نہیں
تم نے کچھ کھایا بھی تو نہیں
میں زیادہ نہیں کھاتا ۔۔۔ تم تو جانتے ہی ہو
ہاں جانتا ہوں
اچھا اب جانے دو مجھے
کیسے جانے دوں ابھی تو کوئی بات ہوئی ہی نہیں
نہیں عابد میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا
عابد نے میرے لہجے کی سختی محسوس کی تو وہ رافعہ کی طرف مڑا
رافعہ تم اسے حقیقت بتاؤ
حقیقت ۔۔۔ رافعہ کے منہ سے نکلا۔۔۔۔ آپ جانتے ہیں کہ اب میں سب بھول جانا چاہتی ہوں۔۔۔ میری حقیقت صرف آپ ہیں ۔۔۔صرف آپ ہیں عابد
رہی بات انکی تو میں انہیں ایز اے رائٹر لائیک کرتی ہوں ۔۔۔ اور کوئی واسطہ نہیں ۔۔۔کوئی رشتہ نہیں
وہ منہ پر ہاتھ رکھکر اندر چلی گئی
میں اٹھ کھڑا ہواء
عابد مجھے جانے دو ، کیوں میری وجہہ سے اپنی ازداوجی زندگی خراب کرتے ہو مجھے جانے دو عابد مجھے جانے دو
نہیں اطہر تمہیں سننا ہو گا۔۔۔ جو میں کہوں گا۔۔۔ عابد کا لہجہ سخت ہو گیا
اچھا کہو ۔۔۔ میں نے ہی ہار مان لی
جب تم نے رافعہ کو پروپوز کیا تھا تو اس سے دو ہفتے پہلے ہی مسرت رافعہ کو تمہارے متعلق اپنے جذبات بتا چکی تھی ۔۔۔ اسلئے رافعہ نے تمہیں ریجیکٹ کیا ۔۔۔ اور پھر مسرت کے ساتھ تم رافعہ کے لئے اٹیچ رہے تو مسرت کی غلط فہمی نے تمہیں اسکی نظروں میں ایک نیا روپ دے دیا۔۔۔ اور پھر تم تینوں کے درمیان ایک مثلث بن گئی۔۔۔ رافعہ اگر تمہیں اپناتی تو مسرت کو دکھ ہوتا۔۔ اور اگر تمہیں مسرت کے جذبوں کا علم ہوتا تم اسے انکار کر دیتے ۔۔۔ اور مسرت تمہیں کچھ کہتی تو رافعہ کو دکھ ہوتا ۔۔۔ غرض تم تینوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔۔۔ مگر تمہارے درمیان ایک مثلث تھی ۔۔۔ اور پھر تم تینوں نے قربانی دی ۔۔۔ رافعہ نے تمہیں چھوڑا ۔۔۔ تم نے رافعہ کو اور مسرت نے تم کو ۔۔۔ یعنی تم نے ایک دوسرے کو ایک دوسرے کی خاطر چھوڑا۔۔۔
اور تم نے اپنا لیا۔۔۔۔ پتہ نہیں میرا لہجہ تلخ کیوں تھا
وہ پھیکی سی ہنسی سے میرے لہجے کو اگنور کر گیا
نہیں میں تو رافعہ کے متعلق جانتا بھی نہ تھا ، صرف تمہارے توسط سے وہ ذہن میں تھی ، گھر والوں نے رشتہ طے کیا ، مجھے جب نام پتہ چلا تو میں صرف اسے مشہابہت سمجھا۔۔۔ مگر جب پتہ چلا تو میں کچھ نہ کر سکا ۔۔۔ میری شادی میری والدہ کی خواہش تھی ۔۔۔ میں انکار نہ کر سکا۔۔۔ پھر بعد میں میں نے تمہیں بہت ڈھونڈا مگر۔۔۔
میں تو یہیں تھا۔۔۔۔ ایک دنیا مجھے جانتی ہے ۔۔۔ میں تمہیں نہیں ملا ۔۔۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا
ہاں ایک دنیا تمہیں جانتی ہے ۔۔۔ تب مجھے احساس ہوا کہ ایک مشہور آدمی سے ملنا کتنا مشکل کام ہے ۔۔۔ خیر اب ملے ہو تو مجھے بہت کچھ سوچنا ہے
تم کچھ نہ سوچوعابد ۔۔۔ سب بھول جاؤ ۔۔۔اسی میں تمہاری بھلائی ہے ، میری بھلائی ہے ، ہم سب کی بھلائی ہے
مگر اطہر تم نے اپنی زندگی کو دکھوں کی آماجگاہ بنا رکھا ہے ، تمہارے خیالات ایک ہی محور پر گھومتے ہیں کہ ، تمہیں ٹھکرایا گیا ہے
نہیں عابد۔۔۔ اب تم میرے خیالات کو بلند پاؤ گے، بس یہی قلق تھا ۔۔۔ کہ مجھے کسی نے نہیں چاہا۔۔۔ مگر آج جانا کہ مجھے بھی چاہا گیا تھا اور چاہا جاتا ہوں
اطہر تمہیں ایک دنیا چاہتی ہے اور تم کہتے ہو تمہیں نہیں چایا گیا
ہونہہ دنیا کی چاہت۔۔۔ یہ دنیا تو ہر اس چیز کو چاہتی ہے جو سامنے ہو ۔۔۔ذرا اوجھل ہونے پر یوں بھولتی ہے جیسے اسکا وجود ہی نہ تھا
آخر ہو نا ڈرامہ نگار ڈائلاگ ہی بولو گے ۔۔۔ میں تو چاہتا ہوں ۔۔۔ کہ اگر تم اسے اپناؤ تو میں ۔۔۔ میں رافعہ کو تمہاری خاطر چھوڑ سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔
کیا۔۔۔۔۔میں چیخ اٹھا اور اسکا گریبان پکڑلیا ۔۔۔ عابد ۔۔میرا ذہن گھومنے لگا ۔۔۔ کیا کہا تم نے ۔۔۔۔ کیوں کہا تم نے یہ ۔۔۔ اسکے الفاظ میرے لئے ایٹم بم سے کم نہ تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں عابد نہیں ۔۔۔۔ میں اپنی زندگی کا دکھ بڑھانا نہیں چاہتا ۔۔۔اور تمہیں کوئی دکھ نہیں دینا چاہتا
ارے میرے لئیے لڑکیوں کی کیا کمی ہے
نہیں ۔۔۔۔اور لڑکیوں اور رافعہ میں بہت فرق ہے دوست ۔۔۔ نہیں تو لڑکیاں تو میرے ساتھ بھی بہت ہیں ، ہر ڈھب کی ، چاہنے والیاں ، جان دینے والیاں
مگر کوئی رافعہ نہے۔۔۔۔۔اسنے جیسے زبردستی بولا
بیشک نہ ہو۔۔ مگر میرے لئے تم یہ قربانی نہ دو۔۔۔میں نے تو اسے صرف چاہا ہے۔۔ اور وہ بھی یکطرفہ طور پر۔۔۔ مگر تم نے تو اسے پایا ہے ۔۔۔ اپنایا ہے۔۔۔ یاد رکھو اس چیز کے جانے کا اتنا غم نہیں ہوتا ۔۔جو تمہاری پہنچ سے دور ہو ۔۔۔مگر جو چیز تمہارے پاس ہو اسکی جدائی مشکل سے برداشت ہوتی ہے
تم صحیح کہ رہے ہو اطہر ۔۔۔ شاید اسی لئیے رافعہ مجھے چاہنے بھی لگی ہے ۔۔۔ بہت چاہتی ہے وہ مجھے۔۔۔ اسکا لہجہ عجیب تھا مجھے جیسے ایک زخم لگا گیا ۔۔۔ میں پھیکی سی مسکراہٹ سے بولا
ہاں عابد ہر وفا شعار بی وی اپنے مجازی خدا کو یونہی چاہتی ہے ۔۔ خدا تم دونوں کو خوش رکھے۔۔۔ اور مجھے اجازت دو۔۔۔ میں اٹھ کھڑا ہواء
اس وقت کہاں جاؤ گے ، رات کے دو بج رہے ہیں ۔۔ ٹیکسی بھی نہیں ملے گی ۔۔۔
ہم آوارہ منش ہیں یار ۔۔۔ پیدل ہی نکلیں گے
نہیں اطہر رات ادھر ہی رہو
نہیں عابد اب میرا یہاں رکنا بہتر نہیں
اطہر ۔۔۔۔ اسکے لہجے میں احساس جرم تھا
عابد ۔۔۔ سمجھا کرو
میں نے اسکا کندھا تھپتپایا اور پھر باہر آ گیا۔۔۔باہر کی سنسان سڑکوں پر میں اکیلا چل رہا تھاْ۔۔۔ ایک طوفان سا تھا خیالات کا۔۔۔ عابد ۔۔۔۔ رافعہ ۔۔۔۔ مسرت ۔۔۔میرے زہن میں یہ نام گڈمڈ ہو رہے تھے ۔۔۔میں نے واقع ہی رافعہ کو دل و جان سے چاہا تھا۔۔۔اور اسکے ٹھکرائے جانے کے بعد سے زندگی کو بے کیف سمجھتا تھا ۔۔۔۔ مگر زمانے کی رنگینناں مجھے بہت کچھ بھلا دیتی تھیں ۔۔۔اور آج کا واقعہ ۔۔۔۔
میں ایک فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا ۔۔۔ایک گاڑی والے نے لفٹ کی آفر کی اور میں گھر آ گیا۔۔۔ کئی دن گذر گئے عابد نے مجھے چار پانچ بار فون کیا اور مجھ سے ملنے کی کوشش بھی کی ۔۔۔ مگر میں جان بوجھ کر اجتناب کیا ۔۔۔۔
ایک دن میں سٹوڈیو میں اپنے ڈرامے کی ریکارڈنگ میں مصروف تھا ، کہ پتہ چلا کہ کوئی خاتون مجھ سے ملنا چاہتی ہیں ، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ رافعہ ایسے مجھ سے ملے گی ، میں نے اسے اندر بلا لیا ، اور اسے کہا کہ میں اپنی ریکارڈنگ پوری کرتا ہوں آپ شوٹنگ دیکھیں۔۔۔ اور میں سیٹ پر اپنے ڈائلاگ بولنے لگا
روبی ۔۔۔تم جانتی ہو جب کسی انسان کو ٹھکرا دیا جاتا ہے تو وہ جیتے جی مر جاتا ہے ، غھکرائے ہوئے انسان کی پہچان مٹ جاتی ہے ، وہ خود کو تنہا کر دیتا ہے ، گمنام کر دیتا ہے ۔۔ مگر ایسے انسان مرنے کے بعد ایک نیا جنم لیتے ہیں ۔۔۔جس میں وہ صدا کے لئیے زندہ رہتے ہیں ۔۔۔۔ یہ دنیا انہیں چاہتی ہے۔۔۔ انہیں پوجتی ہے ۔۔۔ مگر یہ نہیں سوچتی ۔۔۔ کہ اگر اس شخص کو زندگی میں اتنا چاہا جاتا تو شاید وہ زیادہ عظیم ہوتا ۔۔۔ اور زیادہ عظیم ہوتا۔۔۔۔
کٹ ۔۔۔ پروڈیوسر کی آواز ابھری ۔۔۔ گڈ شو اطہر۔۔۔ اوکے پیک اپ۔۔۔۔میں رافعہ کی طرف بڑھتا چلا گیا
ارے آپکی آنکھوں میں آنسو؟
اطہر آپ ایسے کردار کیوں کرتے ہیں
کیوں کہ میں ہوں ہی ایسا
نہیں آپ ایسے نہیں ہیں ۔۔۔۔ میں آپ سے کہنے آئی تھی ۔۔۔
جی کہیے۔۔۔۔
اطہر آپکی آمد نے ہماری ۔۔۔ میرا مطلب ہے ۔۔۔ میری اور عابد کی زندگی میں ایک دھماکہ کر دیا ہے ۔۔۔آپ کی آمد سے ہمارے درمیان پھر سے ایک مثلث بن گئی ہے ۔۔۔ میں عابد اور آپ ۔۔۔ مثلث بن گئے ہیں
مثلث ۔۔۔ میں چونک گیا
نہیں رافعہ میں یہ مثلث نہیں بننے دوں گا۔۔۔ میں دور چلا جاؤں گا۔۔۔ میں سمجھ گیا تھا کہ میری وجہہ سے انکے درمیان کیا ہو رہا تھا۔۔۔۔
اطہر میرا مطلب یہ نہیں ۔۔ آپ عابد کو سمجھائیں جو ہونا تھا ہو چکا ۔۔۔اور اب آپ ہماری زندگی میں زہر نہ گھولیں ۔۔ پلیز
رافعہ ۔۔۔ آپ مطمئن رہیں ۔۔۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا
رافعہ چلی گئی ۔۔۔ میں اسے جاتے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا، زندگی ایسے بھی دور ہوتی ہے ۔۔۔۔
دوسرے دن عابد کو فون کیا ۔۔۔
عابد کچھ مت کہنا۔۔۔صرف میری بات سننا۔۔۔ میں جا رہا بہت دور ۔۔۔زندگی کے کسی موڑ پر تم سے ملوں تو اجنبی سمجھ کر فراموش کر دینا۔۔۔ میں تمہارے اور رافعہ کے اور اپنے درمیان وہ منحوس مثلث نہیں بنانا چاہتا جو کبھی میرے ، مسرت اور رافعہ کے درمیان میں تھی ۔۔۔ جسکی وجہہ سے آج ہم تینوں کی زندگی جہنم بنتی جا رہی ہے
اسئلیے یہ مثلث اب کبھی بھی نہیں بنے گی ۔۔۔
میں نے رسیور رکھ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گو عابد کو کہ تو دیا تھا مگر ۔۔۔ اسے نبھانا ۔۔۔۔ اور جیسے وقت کی رفتارتھم گئی تھی ، شاید میں اسے بھلا نہ پایا تھا، اسنے کہا تھا کہ میں نے اسکی زندگی میں زہر بھر دیا ہے ، مگر اسکی ایک جھلک نے مجھ سے میرا آپ چھین لیا تھا۔۔۔میں نے لکھنا چھوڑ دیا تھا۔۔ تمام پرفارمنگ آرٹس کو بھی ختم کر دیا تھا۔۔۔ رات رات بھر صفحے کالے کرتا ۔۔۔ اور میری ردی کی ٹوکری بھرتی رہتی ۔۔۔
گھر میں ماما کے سوا کون تھا۔۔۔ اور ماں تو سب جان لیتی ہے ۔۔۔ ایک دن انکے بھی صبر کا پیمانہ چھلک گیا ۔۔۔
زی یہ کیا ہے ۔۔۔۔۔ وہ مجھے پیار سے زی کہتی تھیں
ماما ۔۔ ماما ۔۔۔میں نے کچھ کھو دیا ہے ۔۔۔ ماما ۔۔۔ میں کسی کے لئیے دکھ کا باعث بنا ہوں۔۔۔ میں نے انکے گھٹنوں میں سر رکھ دیا ۔۔۔
زی ۔۔۔ تم نے کسی کو دکھ دیا۔۔۔ ناممکن ۔۔۔ کتنا مان تھا انہیں مجھ پر۔۔۔ میرا بیٹا سب کچھ کر سکتا ہے ۔۔۔ مگر کسی کو دکھ نہیں دے سکتا۔۔۔ ناممکن ۔۔۔ انہوں نے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا
اچھا ۔۔ بتاؤ کیا ہواء ہے ؟ مجھے نہیں بتاؤ گے ۔۔۔ اپنی ماما کو ۔۔ اپنی فرینڈ کو۔۔۔۔
ماما۔۔۔ ایک دوست اپنی دوستی کو امر کر گیا ۔۔۔ اور دوسرا اسکے لئیے۔۔۔ میری آواز بھرا گئی ۔۔۔۔ ماما میرا ماضی مجھے ایک تحفہ دے گیا ہے ۔۔۔اور میرا حال ۔۔۔ میرا مستقبل۔۔۔ کچھ نہیں کچھ نہیں ۔۔۔۔ میں بے ربط بول رہا تھا۔۔۔
زی ۔۔۔ وہ کسی شاعر نے کہا ہے نا
کل کاماضی ، آج کا حال ، کل کا مستقبل ہو گیا
جسنے پیچھے مڑ کہ دیکھا، وہ پتھر کا ہو گیا
زی زندگی جمود کا نام نہیں ۔۔۔ حرکت کا نام ہے ۔۔۔ ماضی کبھی حال نہیں ہو سکتا ۔۔۔ اور حال کبھی مستقبل نہیں ہو سکتا۔۔ سو جیو تو آج میں ۔۔۔ سیکھو تو ماضی سے ۔۔۔ سوچو تو مستقبل کا ۔۔۔
مگر ماما ۔۔۔ یاد ماضی ۔۔۔ میں نے کچھ کہنا چاہا ۔۔۔
نہیں زی کچھ نہیں ۔۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔ ٹی وی پر حامد علی کی آواز آ رہی تھی
گذر گیا جو زمانہ اسے بھلا بھی دو
جو نقش بن نہیں سکتا اسے مٹا بھی دو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتہ نہیں یہ محبت بھی کیا چیز ہے ۔۔۔ اسکا کوئی قانون نہیں کوئی قاعدہ نہیں ۔۔۔ اور جب یہ ہو جائے تو بس ہو جاتی ہے۔۔۔ اور یہ دوستی ۔۔۔ یہ اس سے بھی عجیب ہوتی ہے ۔۔۔۔ یار کی خاطر دنیا کو لٹا دیا جاتا ہے ۔۔۔ کسی مذہب کسی قانون ۔۔۔ کسی معاشرے کی نہیں سنتے یہ لوگ۔۔۔ اور قربان ہو جاتے ہیں۔۔۔
عاشق اور دوست سدا روتے ہیں ۔۔۔ عاشق محبوب سے وصل کی خاطر ، ہر نظام سے ٹکرا کر خود کو پاش پاش کر لیتا ہے ۔۔۔ اور دوست ۔۔۔دوست کی خاطر اپنا جیون اندھیر کر لیتا ہے ۔۔۔
ہمارے لئے دوستی اور محبت دو الگ الگ رشتے ہیں ۔۔۔ مگر دونوں کا مقصد ایک ہی ہے ۔۔۔قربانی ۔۔۔ ہم ایک دوسرے کی خاطر جیتے ہیں مرتے ہیں ۔۔۔ مگر اپنی بے بسی اور بے ثباتی کی وجہہ نہیں مانتے۔۔۔
اور جب بھی کوئی ۔۔۔ دل کو بھا جائے یا دل کسی کی طرف کھنچا چلا جائے تو ۔۔۔ محبوب کا اکثر جواب نفی میں ہوتا ہے ۔۔۔ گو وہ سب جانتا ہے ۔۔۔ مگر محبوب ۔۔اگر عشق کو تسلیم کر لے ۔۔۔ تو شاید یہ دنیا ۔۔۔۔ برائیوں سے پاک ہو جائے ۔۔۔ مگر ایسا ہوتا نہیں۔۔۔۔ یہاں دوستی نبھانے کے لئیے قربانی چاہیے ۔۔۔ یہاں عشق کے لئیے اپنی ذات کو بھولنا پڑتا ہے ۔۔ ۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔۔۔۔
میں نے رافعہ کے بعد کچھ عرصہ ۔۔۔آوارگی میں گذارا ۔۔۔ مگر جب کہیں سکوں نہ ملا تو ۔۔۔صرف ماما کے کہنے پر جاب کی تلاش شروع کر دی ۔۔۔ اور پھر شاید وقت کو مجھ پر رحم آہی گیا۔۔۔ مجھے ایک ماہنامے میں ایڈیٹر کی جاب مل گئی ۔۔۔اور میں زمانے کی رنگین و سنگین داستانیں پڑھنے لگا۔۔۔ مگر کیسے۔۔۔۔
ہر لفظ کتابوں میں تیرا عکس لئیے ہے
اک پھول سا چہرہ ہمیں پڑھنے نہیں دیتا
ماما نے میری کیفیت سمجھ لی تھی اور ۔۔۔ ایک پروڈیوسر سے کہ کر مجھے لکھنے پر مجبور کیا ۔۔۔ تو دل کا غبار اپنی کہانی "مثلث” کی صورت میں نکلا۔۔۔۔ اور پھرے یہ کہانی اسکرین کے بنیادی مراحل سے گذرنے لگی ۔۔۔
ریکارڈنگ کے دوران میں کئی دفعہ ۔۔۔ ذہن ی کشمکش کا شکار ہوا ۔۔۔۔ خصوصاً وہ سین جب میری رافعہ سے پہلی ملاقات فلمائی گئی ۔۔۔ میرا کردار کرنے والے فنکار نے (جو مجھے اپنا آئڈئیل کہتا تھا) اپنی جاندار اداکاری اور مکالموں کی ادائیگی سے مجھے میرے حواس پر چھا گیا ۔۔۔۔
یہ سب دیکھ کر ماما نے میری شادی کے لئیے تگ و دو شروع کر دی
میں شادی نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔
کیوں ۔۔۔ ماما کے لہجے میں جانے کیا تھا میں لرز کہ رہ گیا
بس ماما ۔۔۔ ابھی نہیں ۔۔۔
ابھی نہیں تو کیا ۔۔۔ میرے مرنے کے بعد۔۔۔
ماما۔۔۔ میں نے بے بسی سے انکی گود میں سر رکھ دیا۔۔۔
زی ۔۔۔ اب مجھ میں دکھ اٹھانے کی ہمت نہیں۔۔۔ تم دس ماہ کے تھے جب تمہارے پاپا نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا ۔۔۔ تو تمہارے دادا دادی نے ہمیں گھر سے بے گھر کر دیا ۔۔۔ مگر میری صحافت کی ڈگری کام آئی ۔۔۔۔ اور میں نے ایک چھوٹے اخبار میں نوکری کر لی ۔۔۔ اور آج تمہیں اس مقام پر پہنچایا کہ مجھے فخر ہے اپنے بیٹے پر ۔۔۔۔ میں نے تمہیں کوئی بھی گرم سرد نہیں ہونے دیا ۔۔۔ چاہے مجھے آگ اور برف سے لڑنا پڑا ۔۔۔۔ ماما باربار کی دہرائی ہوئی کہانی سنا کر رو دیں
مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی اجڑے باغ میں کھڑا ہوں ۔۔ وہ کہ رہیں تھیں
زی ۔۔۔ میں نے تم سے کبھی کچھ نہیں مانگا ۔۔۔ میں تم سے صرف ایک خوشی مانگتی ہوں ۔۔۔ شادی کر لو۔۔۔ زی میرے لئے ۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔۔۔ اور میں ماں کی مامتا سے ہار گیا ۔۔۔
ٹھیک ہے ماما ۔۔۔ آپ جو چاہیں کریں ۔۔۔ میں نے انکے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ۔۔۔ ماما نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا
اور پھر شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں ۔۔۔ مگر بدقسمتی نے شاید میرا گھر دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔ ایک دن شاپنگ سے واپسی پر ۔۔۔ جب ماما کار ڈرئیو کر رہیں تھیں میں ساتھ والی سیٹ پر تھا ۔۔۔ کار کی ڈکی اور پچھلی سیٹ رنگ برنگے ڈبوں اور شاپرز سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔ کہ سامنے سے آنے والی کوچ ۔۔۔ سڑک کے درمیان بنی پتھر کی پٹی پھلانگتی ہوئی سڑک پر سیکڑوں گاڑیوں کو چھوڑ کر صرف ہماری گاڑی پر چڑھ دوڑی ۔۔۔ اور پھرنہ جانے کیا ہواء ۔۔۔۔ لوگوں کی چیخیں تھیں ۔۔۔ اور رنگ برنگے شاپرز ایک ہی رنگ میں رنگتے چلے گئے ۔۔۔میری آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا ۔۔۔ تو میں نے ان ڈوبتے لمحوں میں سوچا ۔۔۔چلو اس دکھ بھری زندگی سے نجات ملی ۔۔۔۔ مگر یہ طوفان تو کچھ اور ہی چاہتا تھا ۔۔۔میں زندہ رہ گیا ۔۔۔ میری ماں ۔۔۔ میری دوست ۔۔۔ میرے اتنے بڑے بے فضول بدن کو سینچنے والی ۔۔۔ میرا سب کچھ ۔۔۔ مجھ سے بچھڑ گئی ۔۔۔۔ میں پاگل ہو گیا ۔۔۔ گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ۔۔۔آفس میں ذہن الجھا رہتا ۔۔۔ سب لوگ عجیب نظر آتے ۔۔۔ جب کوئی ہنستا تو اسکی آواز صور کی آواز لگتی ۔۔۔میری یہ کیفیت کئی ہفتے رہی ۔۔۔ میں نے چھٹیاں لے لیں ۔۔۔ اور دنیا سے کٹ گیا ۔۔۔ میں تھا ۔۔ تنہائی ۔۔۔ سگریٹ پینا چاہتا تو ماما کا چہرہ سامنے آجاتا جنہوں نے مجھے ۔۔۔ اس سگریٹ سے اتنی نفرت دلائی کہ کبھی خواب میں بھی اسکو ہاتھ نہ لگاتا ۔ ۔
وقت بھی عجیب چیز ہے کبھی تو ایسا رکتا ہے جیسے ساری دنیا ساکت ہو ۔۔۔ اور کبھی ۔۔۔ آندھی طوفان بن جاتا ہے ۔۔۔ وقت کا مرہم لگا تو میں آفس آگیا ۔۔۔ مگر میری خمار آلود آنکھیں مجھے الگ تھلگ ہی رکھتیں تھیں ۔۔۔۔میں اس کیفیت سے کبھی باہر نہ آتا مگر ایک دن ۔۔۔ فون کی گھنٹی بجی ۔۔۔ رسیور اٹھایا ۔۔۔۔
اطہر ہیں ؟
جی بول رہا ہوں۔۔
اطہر ۔۔۔ آپ کیوں ہمارے لئیے عذاب بن رہے ہیں؟
میں رافعہ کی آواز سن کر جیسے ہوش میں آگیا ۔۔۔
راف۔۔۔ رافعہ ۔۔۔ مم ۔۔۔مم ۔۔ میں ۔۔ عذاب ۔۔۔
ہاں میں رافعہ ہوں ۔۔۔۔ آپ جب ہر طرف سے مایوس ہو گئے تو اب یہ ڈرامے بنانے لگے ۔۔۔۔۔۔ہیں ۔۔۔ کیا کر لیں گے آپ ۔۔۔ میں آپکی تھی ۔۔۔اور نہ ہوں ۔۔۔ اور نہ کبھی ہو سکتی ہوں ۔۔۔ چاہے بیسوں ڈراموں میں آپ اپنا رونا روئیں ۔۔۔۔انڈر سٹینڈ یو ۔۔۔۔۔
رافعہ سنیں تو ۔۔۔۔۔
اب سننے کو رہ کیا گیا ہے ۔۔۔ ہم نے سوچا تھا کہ شاید آپ اپنی دوستی کی مثال کو زندہ رکھیں گے ۔۔۔ اور دنیا کو دکھوں سے لڑنا سکھائیں گے ۔۔۔ مگر ۔۔۔
میں کیا سکھاؤں گا ۔۔۔ میں خود ہار گیا ہوں ۔۔۔ میں تو ۔۔ میں تو ۔۔ مر گیا ہوں ۔۔۔
نہیں مرتے آپ جیسے لوگ۔۔۔ ہم جیسے کتنوں کو مار کہ مرتے ہیں ۔۔۔۔
تو آپ چاہتیں ہیں کہ میں مر جاؤں ۔۔۔۔؟؟
میرے چاہنے یا نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔ انسان کی ہر خواہش تو پوری نہیں ہوتی نا ۔۔۔۔ اس کے لہجے میں بے بسی تھی ۔۔۔ اور زہر بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔ میں ہنس دیا
اوکے ۔۔۔ رافعہ آپ کو یہ خوشخبری بھی جلد ملے گی ۔۔
اب کیا خوشخبری ملے گی ۔۔۔ اب تو آپ مر جائیں ۔۔۔ یا مجھے مار دیں ۔۔۔۔مجھے مار دیں ۔۔۔۔
رافعہ ۔۔۔ رافعہ ۔۔۔ مگر فون بند ہو چکا تھا ۔۔۔۔
میں نے ٹی وی کا نمبر ملایا ۔۔۔ پروڈیوسر صاحب ایک دم خوشی سے بولے ۔۔۔۔اطہر تھنکس کے تم نے بھی خبر لی ۔۔۔ارے تمہارا ڈرامہ ۔۔۔۔
سر پلیز اسے آن ائیر نہ جانے دیں ۔۔۔۔
کیا کہ رہے ہو اطہر ۔۔۔ وہ تو ۔۔۔
سر یہ میری زندگی اور موت کا سوال ہے ۔۔۔
اطہر سمجھنے کی کوشش کرو ۔۔۔ ہم نے سپانسر بک کر لئیے ہیں ۔۔۔ جو تمہارے نام کی وجہہ سے ہیں اور ۔۔۔ پھر اسکا ٹریلر دیکھا چکے ہیں ۔۔۔ لوگ تو منتظر ہیں اس ٹراینگل لو اسٹوری کے ۔۔۔۔اور وہ نئی اداکارہ ۔۔۔
سر پلیز اسے روک دیں ۔۔۔۔
اب ایسا ممکن نہیں ۔۔۔ گھر پر جا کہ ٹریلر دیکھنا ۔۔۔ میری ایک ریکارڈنگ ہے ۔۔ میں خود تمہارے گھر آؤں جب ڈرامہ آن ائیر جائے گا ۔۔۔
سر ۔۔۔ سر مگر فون ایک بار پھر بند ہو چکا تھا ۔۔۔۔
گھر آکر میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ٹی وی آن کر دیا ۔۔۔ اشتہار چل رہے تھے ۔۔۔ کہ اچانک میں چونک پڑا ۔۔۔
کل شب کو دیکھیے مشہور رائیٹر اطہر ہاشمی کا لکھا ہوا مثلث
مثلث ۔۔ جذبوں کی کہانی
مثلث ۔۔ دوستی کی کہانی
مثلث ۔۔۔ قربانی کی کہانی
اور پھر کلائمکس سین دیکھایا گیا ۔۔۔۔جسنے میرے دل میں ہلچل مچا دی ۔۔۔یہ سین تھا ۔۔۔ عابد کی بی وی کے روپ میں رافعہ سے میری ملاقات کا ۔۔۔۔میرے ذہن میں چنگاریاں اڑنے لگیں ۔۔۔میں نے آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ مگر آواز سنائی دی ۔۔۔۔ آپ کی آمد نے ہماری زندگی میں زہر گھول دیا ہے ۔۔۔۔میں نے ٹی وی بند کر دیا ۔۔۔ مگر لفظوں کی بازگشت نے میرا پیچھا نہ چھوڑا ۔۔۔۔میں نے نیند کی گولیوں کی شیشی انڈیل لی ۔۔۔۔ مگر صر ف دو گولیاں ۔۔۔ مگر شاید اتنی مقدار ہی مجھے ایک رات تک کے لئے کافی تھی ۔۔۔ آج ابھی میں گھر میں داخل ہواء ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی ۔۔۔عابد کا فون تھا ۔۔۔ اس نے اسی انداز سے بات کی جیسے کبھی میں نے اس سے کی تھی ۔۔۔۔
اطہر کچھ مت کہنا ۔۔۔ تم ہم سے دور نہیں جا سکتے ۔۔۔ اسلئیے ہم تم تو کیا ۔۔۔ اس شہر ۔۔۔ اس ملک کو ہی چھوڑ کر جارہے ہیں ۔۔۔ کوشش کرنا کہ اب کبھی کوئی رابطہ نہ ہو ۔۔۔ میں ۔۔۔میں رافعہ کے لئیے ساری دنیا چھوڑ سکتا ہوں ۔۔۔ کہ میں اسکا ہوں ۔۔۔وہ میری ہے ۔۔۔ گو تم جیسے دوست کو بھولنا مشکل ہو گا ۔۔۔۔مگر ۔۔۔اطہر ۔۔۔لوگ مر بھی تو جاتے ہیں نا۔۔۔۔ہم سمجھیں گے کہ تم مر گئے ہو ۔۔۔
میں کیا کہتا ۔۔۔ وہ رو رہا تھا ۔۔۔ کچھ کہ رہا تھا ۔۔۔ اپنی دوستی کے بارے میں ۔۔۔ اپنی محبت کے بارے میں ۔۔۔ اپنی بے بسی کے بارے میں ۔۔۔ شاید کچھ اور بھی ۔۔۔مگر میں رسیور رکھ چکا تھا ۔۔۔
اب میرے پاس کچھ بھی نہیں ۔۔۔ نہ رافعہ جیسی محبوب ۔۔۔ نہ عابد جیسا دوست ۔۔۔ نہ ماما جیسی ماں ۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔ تو پھر میں کیوں ہوں ۔۔۔ میں نے نیند کی گولیوں کی شیشی کھول کر انڈیلنا چاہی مگر ۔۔۔ یہ کیا ۔۔۔ خالی ۔۔۔ فون پھر چیخا ۔۔۔ پروڈیوسر صاحب تھے ۔۔ کہ رہے تھے ۔۔۔ کہ کچھ دیر بعد میرا ڈرامہ آن ائیر ہو رہا ہے۔ ۔ ۔ جسکے ہزاروں لوگ منتظر ہیں۔۔۔ میں کیا کروں ۔۔۔ ڈرامہ ۔۔۔رافعہ ۔۔۔عابد ۔۔۔محبت ۔۔۔ ماما ۔۔۔کوئی بھی تو نہیں میرے ساتھ ۔۔۔ میرے سر میں آگ سی لگ گئی ہے ۔۔۔ دھڑکن بڑھ گئی ہے ۔۔۔۔ سر پٹھا جا رہا ہے ۔۔۔ رافعہ ۔۔۔۔ یہ تم نے اچھا نہیں کیا ۔۔۔
پتہ نہیں کیوں ٹی وی آن کر دیا ہے میں نے ۔۔۔ مگر اسمیں آواز کیوں نہیں ۔۔۔۔ تصویر کی جگہ روشنی ۔۔۔۔ صرف روشنی ۔۔۔۔ میں دیکھ نہیں پا رہا ہوں کیا۔۔۔ کیا میں مر رہا ہوں ؟ ۔۔۔نہیں نہیں میں مرنا نہیں چاہتا ۔۔۔ ابھی تو مجھے اپنا ڈرامہ دیکھنا ہے ۔۔۔۔مے ۔۔۔مم۔۔۔۔مے مے ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹی وی پر آخری سین چل رہا تھا ۔۔۔ جب دروازہ کھلا ۔۔۔ اور پروڈیوسر صاحب اندر داخل ہوئے ۔۔۔
اطہر ۔۔۔اطہر ۔۔۔تمہارے ڈرامے کی اتنی بڑی کامیابی ۔۔۔ ابھی ڈرامے کے دوران ہی لوگ پوچھ رہے ہیں کیا یہ سب سچ ہے ۔۔ ۔۔۔اطہر ۔۔۔اطہر ۔۔۔ مگر اطہر کا سر ایک طرف ڈھلک گیا ۔۔۔
اوہ مائی گاڈ ۔۔۔۔
انہوں نے جلدی سے ایمبولینس کو فون کیا ۔۔۔
اطہر اپنی آخری کامیابی تو دیکھتے جاتے ۔۔۔۔
اطہر کے کردار کی آواز گونجی ۔۔۔۔
کچھ مت کہنا ۔۔۔۔صرف میری بات سنو ۔۔۔ میں جا رہا ہوں ۔۔۔ بہت دور زندگی کے کسی موڑ پر اگر تم سے ملوں بھی تو اجنبی سمجھ کر فراموش کر دینا ۔۔۔ میں تمہارے اور تمہاری بی وی کے درمیان وہ منحوس مثلث نہیں بننا چاہتا ۔۔۔ جو کبھی اسکے اور میرے درمیان بنی تھی ۔۔۔
آج اس بات کو کئی برس بیت چکے ہیں میں اب بھی اسی شہر میں ہوں اور وہ بھی اسی علاقے میں ۔۔۔ مگر جب فاصلے اپنے پیدا کئیے ہوئے ہوں تو نزدیکیاں بھی دوریاں بن جاتیں ہیں ۔۔۔۔مگر اب میری تحریروں میں ٹھکرائے جانے کا عنصر نہیں ہوتا ۔۔۔ بلکہ ہر تحریر ایک مثلث بناتی ہے ۔۔۔ ملن ۔۔ جدائی اور تنہائی کے درمیان ۔۔۔ اور اسی طرح کی کتنی ہی مثلثیں میری کہانیوں کا عنوان ہیں ۔۔۔ وہ اب بھی مجھے جانتے ہوں گے ۔۔۔ مگر کسی اور نام سے ۔۔۔ کہ میں نے تحریر کا انداز ہی نہیں بدلا بلکہ ۔۔۔ نام بھی بدل لیا ہے ۔۔۔ جیسے کہ کوئی تھا ہی نہیں ۔۔۔۔
اور پھر آخری ٹایٹل چلنے شروع ہوئے ۔۔۔ اطہر کی اپنی آواز گونجی ۔۔۔
یہ میری کہانی ہے ۔۔۔ میرے دوستوں کی کہانی ہے ۔۔۔ میرے چاہنے والوں کی کہانی ہے ۔۔۔ میں اس کہانی میں آپ کو بہت کچھ دے رہا ہوں ۔۔۔ مگر میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ۔۔۔ اور اب میں خالی ہاتھ ہوں ۔۔۔۔ اور شاید یہ میری آخری کہانی بھی ہو !!!!
اینبولینس آ گئی ہے جناب ۔۔۔
ہونہہ ۔۔۔پروڈیوسر صاحب چونک پڑے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹی وی پر خبریں چل رہیں تھیں ۔۔۔
مشہور ادیب اور اداکار جناب اطہر ہاشمی کل دماغ کی شریان پھٹنے سے انتقال کر گئے ۔۔۔ انکی عمر پینتیس برس تھی ۔۔۔ وہ اپنی جذباتی اور فطری اداکاری اور کردار نگاری کے حوالے سے جانے جاتے تھے ۔۔۔ ادبی حلقوں میں انکا خلا ایک مدت تاک پر نہیں ہو سکتا ۔۔۔
ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ۔۔۔
ہیلو ۔۔۔ جی موجود ہیں
مسرت تمہارا فون ہے ۔۔۔۔
مسرت نے ریسیور پکڑا ۔۔۔ ہیلو ۔۔۔۔
جی ۔۔۔ اوہ ۔۔۔ جی وہ میری دوست ہے
کیا۔۔۔۔ وہ چیخ اٹھی ۔۔۔نہیں ۔۔۔کب ۔۔۔
اور کچھ سننے کے بعد مسرت نے ریسیور رکھ دیا
کیا ہوا ۔۔۔مسرت کے شوہر نے پوچھا
وہ میری سہیلی تھی نا رافعہ ۔۔۔
ہاں ہاں وہ عابد کی بی وی ۔۔۔ ماشااللہ بہت اچھی جوڑی ہے ۔۔
وہ دونوں ائیر پورٹ جاتے ہوئے ۔۔۔ مسرت پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی
اوہ ۔۔ نو ۔۔۔ ویری سیڈ ۔۔۔۔
میں تمہارے لئیے پانی لے کر آتا ہوں تم ادھر بیٹھو۔۔۔
شوہر ابھی اندر گیا تھا ۔۔۔ کہ ڈور بیل بجی ۔۔۔۔ مسرت نے آنکھیں پونچھتے ہوئے دروازہ کھولا ۔۔۔اوہ فرح ۔۔۔ دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئیں ۔۔۔ رافعہ نہیں رہی ۔۔۔ ہاں میں بھی اسی کا سن کر آئی ہوں ۔۔۔۔
کون آیا ہے مسرت ۔۔۔۔مسرت کا شوہر پانی کا گلاس لئیے اندر داخل ہوا۔۔۔۔
میری دوست ہے ۔۔۔فرح ۔۔۔رافعہ کا سنکر آئی ہے ۔۔۔ابھی ہم ۔۔۔ اسکی طرف جائیں گے ۔۔۔
اور فرح کی نظر جیسے ہی مسرت کے شوہر پر پڑی ۔۔۔ اسے شاک سا لگا ۔۔۔ عارف ۔۔۔۔آپ ۔۔۔۔
مسرت نے آگے بڑھ کر فرح کو سنبھالا ۔۔۔ مسرت یہ ۔۔یہ وہ ہی عارف ہیں ۔۔۔جس سے ۔۔۔۔۔۔
اور مسرت آگے کچھ نہ سن سکی ۔۔۔۔ اسکی آنکھوں کے سامنے مثلثیں ناچنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ اختتام ۔۔۔۔۔۔۔۔